مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مودی کے نوآبادیاتی ہتھکنڈے،ڈاکٹروں اور نرسوں کا استحصال

حکومت پروپیگنڈے پر شاہانہ اخراجات کررہی ہے اور فرنٹ لائن ڈاکٹروں کو منصفانہ تنخواہ دینے سے انکار کررہی ہے

اتوار 19 اکتوبر 2025 16:35

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اکتوبر2025ء) غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں میڈیکل انٹرنیز کوجو ہسپتالوں میں کام کا سب سے زیادہ بوجھ برداشت کرتے ہیں اور ہنگامی حالات کو سنبھالتے ہیں، یومیہ معاوضہ 410روپے دیا جا رہا ہے جو ہسپتال کی کینٹین میں ایک وقت کا کھانا پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ علاقے میں انٹرن ڈاکٹروں اور نرسوں کو کئی ناانصافیوں کا سامنا ہے جن میں وظیفے کی عدم ادائیگی، کام کی جگہوں پر تشدد ، طویل شفٹوں اور کم اسٹاف کی وجہ سے سخت حالات شامل ہیں۔

سرینگر میںصورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے میڈیکل طلبا ء نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے ریزرویشن پالیسیوں میں شفافیت اور کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ کو بروقت جاری کرنے کا مطالبہ کیا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے پہلے سے منظور شدہ فائل پر گیارہ ماہ کی تاخیر کے باوجود حکومت کی جانب سے وظیفہ بڑھانے سے انکار پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا اور اسے اس بات کا ثبوت قرار دیا کہ جان بچانے والوں سے زیادہ سرخ فیتے کی قدر کی ہے۔

مقبوضہ جموں وکشمیرکی انتظامیہ نے بحران کو مزید بڑھاتے ہوئے سرینگر اورجموںکے گورنمنٹ میڈیکل کالجوں میں ہائوس فزیشنزاور ہائوس سرجنز کی 307آسامیوں کو ختم کر دیا اور ان کی جگہ صرف 121سینئر ریزیڈنٹ پوسٹس رکھیں جس سے 186ملازمتیں کم ہوئیں۔ آل انڈیا میڈیکل اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے نوجوان ڈاکٹروں کے مستقبل کے لیے ایک دھچکا اور حکومت کی غلط ترجیحات قرار دیا۔

حفظان صحت کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکام اخلاقی دیوالیہ پن کا شکارہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت پروپیگنڈے پر شاہانہ اخراجات کررہی ہے اور فرنٹ لائن ڈاکٹروں کو منصفانہ تنخواہ دینے سے انکار کررہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت صحت عامہ اور انسانی وقار کو جان بوجھ کر نظر انداز کررہی ہے۔اس امتیازی پالیسی نے پاکستان میں معروف طبی اداروں کے فارغ التحصیل سینکڑوں قابل کشمیری ڈاکٹروں کو غیر یقینی صورتحال سے دوچارکر دیا ہے جنہیںبرسوں کی سخت تربیت اور خدمت پر مبنی عزم کے باوجود اپنے وطن میں پریکٹس کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

بھارتی حکومت نے ان کی ڈگریوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے بے دخل کرنے کے لئے تعلیم کو ایک ہتھیار بنا دیا ہے جو ان نوجوان پیشہ ور افراد کے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور اس اقدام سے مقبوضہ علاقے کو انتہائی ضروری طبی مہارت سے محروم کر دیاگیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف مقبوضہ جموں وکشمیرمیں محکمہ صحت کے بحران کو مزید گہرا کرتے ہیں بلکہ کشمیری نوجوانوں کو معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ کرنے کے نئی دہلی کے عزائم کوبھی بے نقاب کرتے ہیں۔

ان ڈاکٹروں کواپنے لوگوں کی خدمت کرنے کے حق سے محروم کرناانتظامی کنٹرول کی آڑ میںلوگوں کی امنگوں کو دبانے، وقار کوملیامیٹ کرنے اور ا یک پوری نسل کو دبانے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے جو انصاف، مساوات اور بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔