”زحل“ سیارے کے گرد بننے والے رنگ برنگے دائروں کا راز کھل گیا،سیارہ زحل پربرف اورچٹانوں کے باربارٹکراوٴ سے اس کے گرد دائرے بن جاتے ہیں ۔ سائنسدان

ہفتہ 8 اگست 2015 09:20

نیویارک( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8 اگست۔2015ء ) اب تک دریافت ہونے والے سیاروں میں سے زحل واحد سیارہ ہے جس کیگرد رنگ برنگے دائرے یا ”رنگس“ بنتے ہیں لیکن 400 سال قبل اس کی دریافت سے لے کر اب تک یہ راز ہی تھا کہ یہ دائرے بنتے کیوں ہیں تاہم اب سائنس دانوں نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارہ زحل پربرف اورچٹانوں کی آپس میں باربارٹکراوٴ سے ہونے والے تباہی سے اس کے گرد دائرے بن جاتے ہیں جب کہ اس انکشاف سے زحل پر ادھر ادھر گھومتے ہوئے ذرات کی وضاحت کرنے میں بھی مدد ملے گی، سائنس دانوں کے نزدیک یہ ذرات 10 فٹ سے لے کر 32 فٹ تک بڑے ہوجاتے ہیں جو کہ عام طور پر کسی اور سیارے پر نظر نہیں اتے۔

تحقیق کے مطابق زحل کے گرد بننے والا ہر رنگ یا لیئر مخصوص ذرات کے سائز کے مطابق بنتی ہے جب کہ اس طرح کے رنگس کچھ عرصے سے زیادہ واضح نظر آنے لگتے ہیں۔

(جاری ہے)

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اس انکشاف سے دیگر سیاروں کے گرد بننے والے دائروں کا بھی راز سامنے لایا جا سکتا ہے۔ماہرین فلکیات کا ماننا ہے کہ بڑے سائز کے ذرات کم رفتار سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں جس کی وجہ سے چھوٹے ذروں کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور وہ زیادہ رفتار سے آپس میں ٹکراتے ہیں جب کہ یہ ٹوٹنے کا عمل کافی عرصے تک جاری رہتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے مشتری، نیپچون اور یورینس کے گرد بننے والے دائروں کا راز بھی افشا کرنے میں مدد ملے گی جب کہ اس سے اس مشکل کا بھی حل مل جائے گا کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر یہ دائرے کیوں نظر آتے ہیں۔یونیورسٹی آف لیسٹر کے پروفیسر اور اس تحقیق کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ان دائروں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ دائرے برف کے ذرات پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کا سائز 32 فٹ تک ہوتا ہے جب کہ یہ ذرات زمانہ قدیم میں یہاں ہونے والی کسی بڑی تباہی کی باقیات ہیں اسی لیے یہ اپنے سائز میں بہت چھوٹے اور بہت بڑے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اصول صرف زحل کے لیے نہیں بلکہ تمام ہی سیاروں پر لاگو ہوتا ہے اور وہاں بننے والے دائرے بھی اسی طرح وجود میں آئے ہیں۔واضح رہے کہ سیارہ زحل کو 1610 میں سائنس دان گلیلیو نے دریافت کیا تھا اور 400 سال تک اس کے گرد بننے والے رنگ برنگے دائرے سائنس دانوں کے لیے معمہ بنے ہوئے تھے۔۔