وبائی امراض کی عدم روک تھام پر وفاقی سیکرٹری صحت سمیت چاروں صوبائی ڈائریکٹر جنرل صحت کو نوٹسز جاری،تین ہفتوں میں مفصل رپورٹ طلب، وفاقی وزیر کے رشتہ داروں کی کالے یرقان سمیت بعض ادویات پر اجارہ داری ہے اس کا جائزہ لیں گے،جسٹس اعجاز افضل خان ،ملک میں دہشت گردی کے باعث دو فیصد جبکہ 98 فیصد لوگ بیماری سے مر جاتے ہیں۔ یہ انتہائی پریشان کن بات ہے، عدا لتی ریما رکس

بدھ 23 دسمبر 2015 09:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23دسمبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے وبائی امراض کالے یرقان‘ پولیو سمیت بیماریوں کی عدم روک تھام پر وفاقی سیکرٹری صحت‘ چیف ایگزیکٹو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی‘ چاروں صوبائی ڈائریکٹر جنرل صحت کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان سے تین ہفتوں میں مفصل رپورٹ طلب کی ہے۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر کے رشتہ داروں کی کالے یرقان سمیت بعض ادویات پر اجارہ داری ہے اس کا جائزہ لیں گے۔

پولیو کی ویکسین عموماً زائد المعیاد ہوتی ہے امداد میں آنے والی سرنجیں کھلے عام بازاروں میں فروخت ہو رہی ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے باعث دو فیصد جبکہ 98 فیصد لوگ بیماری سے مر جاتے ہیں۔ یہ انتہائی پریشان کن بات ہے کہ ملک میں پچاس لاکھ بچے نمونیا اور اسہال کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

(جاری ہے)

کوئی کمپنی اگر سستی دوا تیار کرتی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کی جاتی۔

منگل کو مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ہر تیسرا بندہ یرقان کا شکار ہے‘ کالے یرقان کا اعلاج مہنگا ہونے کے باعث عام لوگ علاج تک نہیں کرا سکتے۔ جیلوں میں علاج معالجے کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے قیدی مر رہے ہیں اور کسی کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا میں آجکل خبریں عام ہیں کہ وفاقی وزیر کے رشتہ دار کالے یرقان کی دوا بیرون ملک سے منگواتے ہیں اور چند ادویات پر ان کے رشتہ داروں کی اجارہ داری ہے یہ الزام کس حد تک درست ہے اس کا جائزہ لیں گے۔

دوران سماعت نجی دوا ساز کمپنی کے وکیل راجہ فاروق بھی پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کی کمپنی نے کالے یرقان کے حوالے سے جو دوا تیار کی ہے اس کی قیمت صرف 116 روپے ہے جبکہ دیگر کمپنیاں یہ دوا ایک ہزار سے تین ہزار روپے تک تیار کر کے فروخت کر رہی ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اس کی دوا کو رجسٹر کرنے کے لئے تیار نہیں اگر یہ دوا رجسٹر ہو جائے تو وہ اپنے ملک کے لوگوں کو سستی سے سستی قیمت پر یہ دوا فراہم کرنے کو تیار ہیں۔

جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگ مر رہے ہیں اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اتنی سستی دوا کو کیوں رجسٹر نہیں کر رہی۔ اس حوالے سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو اگلی سماعت پر جواب دیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ادویات کی فروخت پر کسی اجارہ داری قائم نہیں ہونے دینگے اور نہ ہی بچوں اور عام لوگوں کی زندگی اور صحت سے کسی کو کھیلنے کی اجازت دینگے۔

آئین اور قانون کے مطابق شہریوں کو علاج معالجے کی سہولیات مہیا کرنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اس دوران سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اب یہ معاملہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے لہذا اب صوبے ہی اس بارے جواب دینے کے پابند ہیں۔ اس پر عدالت نے چاروں صوبوں کو بھی نوٹس جاری کئے ہیں اور ان سے بھی جواب طلب کیا ہے۔ عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت تین ہفتوں کے ملتوی کر دی۔