سعودی عرب،سال 2016 کابجٹ 28 دسمبر کو پیش کیا جائے گا، توانائی کے شعبے میں کمپنیوں کو دی گئی سبسیڈی کی مد میں خاطر خواہ کمی کا امکا ن

بدھ 23 دسمبر 2015 09:36

جدہ (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23دسمبر۔2015ء)سعودی عرب کا سال 2016 کا میزانیہ 28 دسمبر کو پیش کیا جائے گا۔ سعودی حکام کے مطا بق مملکت کا سالانہ بجٹ ہر سال دسمبر کے آخری عشرے میں پیش کیا جاتا ہے۔ بجٹ سوموار کو ہونے والی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔سعودی عرب نے سال 2015 کے دوران توانائی کے شعبے میں کمپنیوں کو 100 بلین ڈالر مالیت کی سبسیڈی فراہم کی۔

تیل کی قیمتوں میں کمی کی تناظر میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے اخراجات کو کنٹرول کرنے کی ہدایات کی روشنی میں سعودی عرب کے پیش آئند میزانئے میں سبسیڈی کی مد میں خاطر خواہ کمی کی جا سکتی ہے۔خلیج کے علاقے میں سعودی عرب سبسڈی دینے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ مقامی پیداوار کا تیرہ فیصد انرجی سیکٹر کو سبسڈی فراہمی پر خرچ کیا گیا جس میں 60 فیصد کمپنیوں کو دیا گیا۔

(جاری ہے)

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے اندازوں کے مطابق سعودی عرب نے اس سال اپنی قومی پیدوار کا 13 فیصد یعنی ایک 100 بلین ڈالرز انرجی سیکٹر کو سبسڈی فراہم کرنے پر صرف کیا۔سعودی عرب خلیجی ممالک میں سے سے بڑا ملک ہے کہ جو قومی آمدنی کی پیدوار کا سب سے بڑا حصہ سبسڈی کی مد میں خرچ کر رہا ہے۔ سعودی سبسڈی کا ساٹھ فیصد شہریوں کے بجائے کمپنیوں کو دیا جا رہا ہے جس کے باعث متعدد عالمی مالیاتی اداروں نے ایسی سبسڈی کے طریقہ کار میں تبدیلی لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ان مالیاتی اداروں کا کہنا ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں کمی اور ملنے والی حکومتی سبسڈی کی وجہ سے بہت سی کمپنیاں اسے مال مفت سمجھ کر خرچ کرتی ہیں کیونکہ یہ حکومت کی طرف ادا کی جا رہی ہوتی ہے۔وینزویلا کے بعد سعودی عرب دنیا کا دوسرا ملک ہے کہ جہاں فی لٹر پٹرول کی قیمت سب سے زیادہ کم ہے۔ سعودی عرب میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 12 سنٹ ہے، اس دنیا میں پٹرول کی قیمتوں سے موازنہ کیونکر کیا جا سکتا ہے؟دنیا میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت ناروے میں سب سے زیادہ ہے جہاں ایک لٹر تیل دو ڈالر کا فروخت ہوتا ہے۔

پٹرول کی فروخت سے ملنے والے منافع کو ناروے میں تعلیم اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔امریکا، جرمنی، برطانیہ، ترکی اور بلجیئم سمیت دنیا کے 37 ملکوں میں ایک لٹر پٹرول کی قمیت ایک ڈالر سے کم ہے۔سعودی عرب کے قدرتی وسائل اور بجٹ کی سپورٹ میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ تقریبا مفت بجلی فراہمی کی وجہ سے مقامی سطح پر تیل کا استعمال سالانہ سات فیصد بڑھ رہا ہے۔

نیز آبادی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے، جس کے باعث سعودی عرب اپنی تیل کی پیدوار کا 25 فیصد مقامی طور پر استعمال کر رہا ہے جس کی وجہ سے آمدنی کے اس اہم ذریعے کی بیرون ملک برآمد میں خاطر خواہ کمی آ رہی ہے۔تیل پیدا کرنے والے دنیا کے متعدد ملکوں میں توانائی کے شعبے کو دی جانے والی سبسڈی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان ملکوں میں یو اے ای، انگولا اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تمام ملک تیل برآمد کرنے والی عالمی تنظیم 'اوپیک' کے رکن ہیں۔

متعلقہ عنوان :