شہر قائد سمیت سندھ بھر میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہونے کا ہولناک انکشاف

ہفتہ 15 جولائی 2017 22:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ اتوار جولائی ء)شہر قائد سمیت سندھ بھر میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہونے کا ہولناک انکشاف ہوا ہے ،سندھ ہائی کورٹ میں واٹر کمیشن کی سماعت ہفتہ کو ہوئی ،جس میں کراچی سمیت سندھ بھر کے مختلف شہروں کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہونے کا لرزہ خیز انکشاف ہوا ہے ،شہر قائد میں پانی کے 33 فیصد نمونوں میں سیوریج کا پانی شامل ہے اور 90 فیصد پانی پینے کے لئے نقصان دہ ہے ،سپریم کورٹ کے حکم پر قائم عدالتی واٹر کمیشن کی سماعت میں ٹاسک فورس کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کراچی میں کسی بھی جگہ صاف پانی نہیں مل رہا اور پوری پوری رات کلورین ملائے بغیر پانی فراہم کیا جاتا ہے ،ماہر موحولیات ڈاکٹر مرتضیٰ نے بتایا کہ فلٹریشن پانی کے ساتھ گندا پانی بھی مکس ہورہا ہے ،ڈپٹی ایم ڈی واٹر بورڈ نے اعتراف کیا کہ کراچی میں 19 مقامات پر پینے کے پانی میں سیوریج کی لائنیں مل گئی ہیں،جبکہ عمارتوں اور گھروں کے ذمینی پانی کے ٹینک کئی کئی سال تک صاف نہیں ہوتے ،جسٹس اقبال کلھوڑو نے استفسار کیا کہ لوگ لائن کے پانی سے وجو کرتے ہیں تو کیا یہ گندا پانی وضو کے لئے استعمال کیا جائے،واٹر کمیشن نے شہریوں کو گندا پانی فراہم کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے فلٹرین پلانٹس کا کیا فائدہ جب لوگوں کو صاف پانی نہ ملے ،ٹاسک فورس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ کے 14 اضلاع کے 71 اسپتالوں میں بھی پانی کے نمونت ٹیسٹ کیے گئے اور 88 فیصد نمونے مضر صحت ثابت ہوئے ،میر پور خاص میں 28 فیصد ،ٹنڈو الہیار میں 23 بدین میں 33 جامشورو میں 36 ٹنڈو محمد خان میں 30 حیدر آباد میں 42 لاڑکانہ میں 60 فیصد پانی کے نمونوں میں انسانی فضلہ پایا گیا،سب سے کم انسانی فضلے کے اجزا تھرپار کر میں پائے گئے،اس موقع پر واٹٹر ٹینکر ایسوسی ایشن نے کہا کہ کراچی میں ڈیڑھ سو سے ذائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس ہیں ،عدالتی کمیشن نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے پوچھا کہ کیا آپ غیر قانونی ہائیڈرنٹس چلا رہے ہیں،ایم ڈی واٹر بورڈ نے اعتراف کیا کہ غیر قانونی کنکشن دینے میں ہمارا عملہ بھی ملوث ہے ،واٹر کمیشن نے سماعت 29 جولائی تک ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :