ریلوے کو کامیاب ماڈل کے طور پر سامنے لائے ، ہمیں بھارت یا کسی پرشاد کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ‘ خواجہ سعد رفیق

ہمیں یہ سبق دینے کی ضرورت ہے اور نہ ہم نے یہ سبق پڑھنا ہے ،انصاف نہ ملنے کے معاملے میں سیاستدان ،سول سرونٹس ایکدوسرے کی برادری ہیں انصاف ہونا چاہیے اور انصاف ملے گا ،ہم رہیں یا نہ رہیں انصاف لے کر رہیں گے ،دیانتدار شخص پر شک کیا جائے تو اس کی روح فناہو جاتی ہے وزیر ریلویز کا چیئر پرسن و فاقی سیکرٹری پروین آغا کی ریٹائرمنٹ پر ان کے اعزازمیں منعقدہ الوداعی تقریب سے خطاب

اتوار 29 اپریل 2018 18:00

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ اتوار 29 اپریل 2018ء)وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ ملک کے بڑے ادارے کو نجکاری کے بغیر بھی کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے اور ہم اس ماڈل کو سامنے لائے ہیں ، ہمیں بھارت یا کسی پرشاد کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ، ہمیں یہ سبق دینے کی ضرورت ہے اور نہ ہم یہ سبق پڑھیںگے ،انصاف نہ ملنے کے معاملے میں سیاستدان اور سول سرونٹس ایکدوسرے کی برادری ہیں،انصاف ہونا چاہیے اور انصاف ملے گا ،ہم رہیں یا نہ رہیں انصاف لے کر رہیں گے ،جو ملک کی خدمت کرے اس کی تضحیک کی جائے اس کو چور قراردیدیا جائے شک کی نظروں سے دیکھا جائے تو وہ مر جاتا ہے اس کی روح فنا ہو جاتی ہے،میں اور ریلوے کے افسران آج کل اسی اذیت سے گزر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے میو گارڈن کلب میں چیئر پرسن و وفاقی سیکرٹری پروین آغا کی ریٹائرمنٹ پر ان کے اعزازمیں منعقدہ الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر چیف ایگزیکٹو آفیسر پاکستان ریلوے محمد جاوید انور ،ڈی آئی جی ریلوے پولیس شارق جمال خان سمیت دیگر افسران بھی موجود تھے ۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پرویز آغا نے بڑی فراست ، تدبر، حکمت ، جرات اور تسلسل کے ساتھ اپنا کردار نبھایا ہے۔

آپ نے ہمیں غلطی نہیں کرنے دی اور ہم نے آپ سے سیکھا ہے ۔آپ نے مجھے گائیڈ بھی کیا ہے ، پروین آغا صاحبہ غصے میں بھی آتی تھیں لیکن انہوںنے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا ان کا غصہ میرے والا نہیں ہوتا تھا جو ہوتا کم ہے لیکن لگتا زیادہ ہے ۔ انہوںنے کہا کہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ ملک کے بڑے ادارے کو نجکاری کے بغیر بھی کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے اور ہم اس ماڈل کو سامنے لائے ہیں ۔

ہمیں بھارت یا کسی پرشاد کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔ ہمیں یہ سبق دینے کی ضرورت نہیں اور ہم نے یہ سبق پڑھنا بھی نہیں ہے ، ہم نے لوکل ماڈل تخلیق کیا ہے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ریلوے کے ساڑھے پانچ کرور مسافر اس کو مانتے ہیں کہ تبدیلی آئی ہے ،یہ آپ کے سفیر ہیں اور ہر گلی میں سفیر کہہ رہا ہے کہ ریلوے کی حالت بدلی ہے اورمثبت تبدیلی آئی ہے ،ہم یہی کر سکتے تھے باقی کام آنے والوں کا ہے ۔

دعا ہے کہ ریلوے کے افسران کو ایسی لیڈر شپ ملے جو اسی جذبے سے کام کرے ۔ انہوںنے ریلوے افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ گواہ ہیں کہ ہم نے دیانتداری کے ساتھ کام کیا ہے اور اقربا پروری کے پرخچے اڑائے ہیں،آپ گواہ ہیں کہ ہم نے کوئی سیاسی بھرتی نہیں کی ، میں نے اپنے حلقے یا مسلم لیگ (ن) کے کسی شخص کو دفتر میں بھی نہیں آنے دیا کہ یہ سرکار کا دفتر ہے اور سرکار کے دفتر میں سرکار کا کام ہوگا۔

ہم نے مل کر ایک ماحول بنایا ہے اور ہم انشا اللہ تعالیٰ کسی کو اس ماحول کو خراب نہیں کرنے دیں گے۔ہم امید کرتے ہیں کہ ریلویز کے ماڈل کو باقی سرکاری ادارے بھی فالو کریں گے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں سوچتا تھاکہ میں اپنے بیٹے کو کہوں گاکہ تم سیاست میں آئو لیکن چالیس سال میں پہلی بار ڈبل مائنڈڈ ہوں کہ یہ کام اچھے لوگوں کے کرنے کا ہے بھی یا نہیں۔

اس لئے فی الحال میں پروین آغا صاحبہ کو پیشکش نہیں کر رہا ورنہ میں نے انہیں پیشکش کر دینی تھی ۔ کیونکہ جو ہمارے ساتھ ہو رہا میں نہیں چاہتا کہ وہ ہماری بہن کے ساتھ بھی ہو ۔خواجہ سعد رفیق نے کہا پاکستان ریلویز نے الحمد اللہ پانچ سال میں پندرہ سال کا سفر تو ضرور طے کیا ہے ۔پروین آغا صاحبہ خصت ہوئی ہیں اور میں بھی تیس پینتیس دن بعد جانے والا ہوں لیکن ریلوے میں بہت سے افسران ہیں جنہوں نے کئی کئی سال اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔

ہم آپ کیلئے دعا کریں گے ۔ ہم چاہے حکومتوں میں ہوں یا اپوزیشن ، باہر ہوں یا اندر ہوں آپ کی تقویت کیلئے کردار ادا کروں گا۔آپ کو سپورٹ کریں گے آپ کی مدد کریں گے ۔ہم اس بات کا عہدہ کرتے ہیں کہ یہ جو محنت کی ہے اور ریلوے کو جس خاص جگہ پر لے کر آئے ہیں اسے کوئی پیچھے لے جانے کی کوشش کرے گا تو ہم مزاحمت کریں گے،آپ اکیلے نہیں ہوں گے اس کیلئے ہم سول سوسائٹی سے نکل کر آپ کی سپورٹ کریں گے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ریلویزکامیاب ماڈل کے طور پر سامنے رہے ۔

انہوںنے کہا کہ ایسا آدمی جوکروڑوں اربوں روپے کے معاہدوں پر دستخط کرے اور اس کاکوئی مفاد نہ ہو اس کی سوچ میںبھی نہ آئے کہ اس میں میر اکوئی مفاد ہے،محکمے کو پائوں پر کھڑا کرے ۔اس کے بچوں کے مسائل ،فیسوں کے مسائل ، اس کے سٹیٹس کے مسائل ،ایک سرکاری افسر کامعاشرے میں مقام ہے لیکن جیب میںپیسہ نہیں ہے ۔جب اس کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔

میںسمجھتا ہوں مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ پاکستان میں سول سرونٹس کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہوا ۔ ہم تو کہتے ہیں کہ سیاستدانوں کے انصاف نہیں ہوا اس معاملے میں ہم ایک دوسرے کی برادری ہیں۔ نہ ہمیں انصاف ملا ہے اور نہ آپ کو انصاف ملا ہے۔انصاف ہونا چاہیے اور انصاف ملے گا ،ہم انصاف لے کر رہیں گے ہم رہیں یا نہ رہیںانصاف لے کر رہیں گے ۔ملک ایسے نہیں چلے گا ، جو ملک کی خدمت کرے اس کی تضحیک کی جائے اس کو چور قراردیدیا جائے شک کی نظروں سے دیکھا جائے یہ چیز کتنی تکلیف دیتی ہے ۔

جب ایک دیانتدار شخص پر شک کر دیا جائے تووہ مر جاتا ہے اس کی روح فنا ہو جاتی ہے،اس مرحلے سے آج کل میں اور آپ اکٹھے گزر رہے ہیں ۔دل خراب ہوتے ہیں کام کرنے کو دل نہیں کرتا لیکن پھر اپنی ہمت کو جمع کرتے ہیں کہ تھکنا نہیں ہے اور پھر چل پڑتے ہیں لیکن یہ مرحلہ بھی گزر جائے گا۔ اس موقع پر پروین آغا کا کہنا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ میں آج آپ سب کی سپورٹ سے باعزت اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہو رہی ہوں ۔

ریلوے میری چوائس نہیں تھی لیکن خدا کی حکمت میری سوچ سے بہتر تھی اور ریلوے کی بحالی کے اس سفر میں بطور چیئرپرسن ساڑھے چار سال کام کرنا میرے لیے باعث فخر ہے۔ میں نے ہر پروکیورمنٹ کرتے ہوئے صرف اصول و ضوابط و میرٹ کو مد نظر رکھا ۔ کبھی کسی حوالے سے میرا کوئی پرسنل انٹرسٹ نہیں رہا جس کے گواہ آپ سب ہیں۔ میں ریلوے افسران، سعد رفیق صاحب، سی ای او پاکستان ریلوے کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے عزت دی اور اس ادارے کو باقی خواتین کے لیے بھی کام کرنے کی بہترین جگہ بنایا۔