Mah E October Breast Cancer Se Aaghi K Naam - Article No. 1993

Mah E October Breast Cancer Se Aaghi K Naam

ماہ اکتوبر،بریسٹ کینسر سے آگہی کے نام - تحریر نمبر 1993

خاتون آپ تندرست تو گھرانہ صحت مند

ہفتہ 31 اکتوبر 2020

شاہین ملک
کینسر ایسا مرض ہے جس میں جسمانی خلیات بغیر کسی کنٹرول کے تقسیم در تقسیم ہو کر ایک رسولی Gland کی شکل اختیار کر لیتے ہیں،یہ پیچیدہ اور موذی مرض جسم کے کسی بھی عضو میں ہو سکتا ہے۔اکتوبر چھاتی کے کینسر کی آگاہی کا مہینہ ہے۔چنانچہ ہماری کوشش ہے کہ خواتین میں نمو پانے والا یہ مرض پھیلنے سے روکا جائے۔اس ضمن میں نے بہنوں کی رہنمائی کے لئے ڈاکٹر روفینہ سومرو اور نائیلہ زاہد(بریسٹ کینسر کی اسپیشلسٹ)سے ان کی آراء لی ہیں۔
آپ بھی اپنا قیمتی وقت اس تحریر کے لئے مختص کر دیجئے․․․․․
عالمی ادارہ صحت WHO پہلی سے اکتیس اکتوبر تک بریسٹ کینسر سے آگاہی کی مہم شروع کرتا ہے۔پوری دنیا کے اس مخصوص کینسر کے علاج معالجے سے متعلق ہستیاں ،طبی و سماجی تنظیمیں اور صحت یاب ہو کر گھر لوٹنے والی خواتین اس روز گلابی ملبوسات،گلابی ربن اور دیگر علاقوں کے ساتھ واک میں شرکت کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

ادارے اپنے منصوبوں میں آگہی کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں کی ترقی و ترویج کے ذرائع اختیار کرتے ہیں۔پاکستان میں بھی پنک ربن کی بین الاقوامی تنظیم کی مقامی شاخ اپنا اسپتال اور کلینک قائم کر رہی ہے جو یقینا اچھی پیش رفت ہو گی۔
کینسر کی شروعات کیسے ہوتی ہے؟
ناک،کان اور گلے میں انفیکشن سے رسولیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
یہ عموماً مردوں میں دیکھی گئی ہیں اور بروقت تشخیص اور علاج ہو جائے تو 90 فیصد لوگ صحت یاب ہو جاتے ہیں۔خواتین میں کالر کی ہڈی سے بغل اور پھر سینے کے اطراف محسوس ہونے والی گلٹی بریسٹ کینسر ہو سکتی ہے مگر شروع میں اس کا اندازہ نہیں ہوتا جب تک یہ Lumpیعنی گلٹی کی واضح شکل نہ اختیار کر لے۔ڈاکٹر بھی جب تک بایوپسی نہ کرالیں اس خلیے کی پہچان نہیں کر سکتے۔
پہلی بار کئی ماہ پہلے پیدا ہونے والی گلٹی بعدازاں چھوٹے چھوٹے غدودوں کی شکل میں پورے جسم یعنی سینے کے اطراف پھیلتی چلی جاتی ہے۔اسے معمولی کی بات یا ہلکا لینا قطعاً مناسب نہیں ہوتا۔اگر درد محسوس ہوتو خود علاجی کے طور پر خواتین پین کلر کھا کر مطمئن نہ ہوں۔اس طرح درد تو ٹھیک ہو سکتا ہے مگر اصل بیماری جوں کی توح اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور کچھ عرصے بعد نا قابل علاج کے مرحلے میں جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر روفینہ سومرو کہتی ہیں:
”میں ایک طویل عرصے سے کراچی کے لیاقت نیشنل اسپتال اور بی ای سی ایچ ایس کے ٹراما سینٹر میں چھاتی کے سرطان کا علاج کر رہی ہوں ۔میرا مشاہدہ یہ ہے کہ پاکستان میں یہ موذی مرض دنیا کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔اگر یوں کہوں کہ ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو لاحق ہے تو غلط نہ ہو گا۔اس مرض کی شرح پاکستان میں زیادہ ہے اور دیگر ایشیائی ملکوں میں قدرے کم ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہماری دیہی تو کیا شہری خواتین میں بھی صحت کے امور سے متعلق شعور موجود نہیں۔یہ اسپتال اس وقت آتی ہیں جب کام کاج سے لاچار ہونے لگتی ہیں۔ تیسری اسٹیج پر آنے والی خواتین کے علاج نہایت پیچیدہ اور لاحاصل کے قریب جا پہنچتا ہے۔صرف 10فیصد خواتین میمو گرام کراتی ہیں اور صرف طبقہ اعلیٰ کی خواتین فوری علاج معالجہ شروع کرتی ہیں۔
افسوس اس امر کا بھی ہے کہ متوسط،غریب اور دور دراز علاقوں میں رہنے والی خواتین کی تعداد زیادہ ہے مگر جو دوسری اسٹیج کے بعد رابطہ کرتی ہیں اور کچھ کر ہی نہیں پاتیں کیونکہ سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں کینسر کے علاج کی سہولت ناپید ہے۔
کس مرحلے پر مرض لاحق ہو سکتا ہے؟
”یہ ایک Complex diseaseہے۔پہلی اسٹیج پر ہی تشخیص ہو جائے تو ٹیومر کے حجم بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے لہٰذا فوری سرجری ہو یا کوئی Systemic Therapyمثلاً Chemoہو یا انفرادی طور پر ہر مریضہ کی الگ تشخیص کافی لمبا عرصہ مریضہ کو اپنی Will Powerپر زندہ رہنا ضروری ہے۔
اس میں خاندان کی معاونت اور حسن سلوک بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔کیونکہ ایک طرف پیسہ خرچ ہو رہا ہوتا ہے دوسرے مریضہ روزانہ کے گھریلو کام کاج،ملازمت وغیرہ سے کٹی ہوتی ہے۔مگر دوسری اسٹیج پر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جدید ترین ادویات اور طبی سہولتوں کی مدد سے قیمتی جان کا تحفظ کر لیں۔کم از کم 5برس سے بیس برس تک یہ خواتین آرام سے زندہ رہ سکتی ہیں تاہم انہیں درج ذیل غذاؤں اور نگہداشت کے امور پر توجہ دینے کی پابند ہونا چاہئے۔

ایسی ہر غذا ترک کرنا ہو گی جو کینسر پیدا کر سکتی ہے مثلا پروسیسڈ فوڈ،جنک فوڈ وغیرہ نہ کھائے جائیں۔تمباکو نوشی نہ کی جائے۔
کرم کلہ،بروکلی،ساگ،پالک،سلاد،روز میری اور دوسری جڑی بوٹیاں خوراک کا حصہ بنائی جائیں۔
پیاز اور لہسن NitrosaminesاورAflatoxinsکا گھیراؤ کرکے ان کے زہر کو ختم کرتے ہیں۔اس طرح کینسر کے مریضوں کے پیٹ،پھیپھڑے اور جگر محفوظ رہتے ہیں۔

لیموں،کینو،موسمی اور دوسرے سٹرس فروٹس مثلاً اسٹرابیری ،رس بھری وغیرہ کھائے جائیں۔ان میںCarotenoids،Flavonoid اور Terpenesایسے اجزاء موجود ہیں جو کینسر زدہ اجزاء کو بے اثر کرتے ہیں۔
انگور کھائے جائیں،یہ بھی کینسر زدہ خلیوں کے خلاف مدافعت پیدا کرتے ہیں۔
اولیو آئل اور سویابین میں کینسر کے خلاف مدافعت کرنے والے موثر ترین اجزاء موجود ہیں۔

گاجر اور ہرے پتوں والی سبزیاں کھائی جائیں۔
ورزش کے ساتھ ساتھ ہر ماہ آپ اپنا معائنہ اور جائزہ لیا جائے۔تبدیلی،چھاتی کا سائز بڑھنا گھٹنا،کوئی دانہ،مواد،گلٹی،سوجن ہو ماہر امراض سے رجوع کریں۔درد کش ادویات لے کر بیماری کو پنپنے کا موقع نہ دیں۔
نائیلہ زاہد
آپ لیاقت نیشنل اسپتال میں Oncologistکی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔
آپ کی رائے کے مطابق ”میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ جس طرح ہر بیماری میں مزاج پرسی،داد رسی اور مکمل نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح کینسر کی مریضاؤں کے لئے بھی اخلاقی و جذباتی معاونت درکار ہوتی ہے۔سرجری کے بعد میرا کام شروع ہوتاہے۔بہت سی مریضائیں بال جھڑنے،نقاہت، بڑھنے اور دوسری پیچیدگیوں کی وجہ سے پریشان ہوتی ہیں۔اگر آپ کو خدا نخواستہ یہ بیماری لاحق ہو جائے تو بجائے خوفزدہ ہونے اور ہمت چھوڑ دینے کے آپ اپنا سہارا بنیئے۔
کچھ دیر کے لئے گھریلو ذمہ داریوں کو بھول جائیں۔بالوں کے لئے ہم نے وگز بنا رکھی ہیں۔اگر آپ کا بجٹ اجازت دیتا ہے تو آپ مارکیٹ سے وگ لے کر استعمال کر سکتی ہیں وگرنہ ایک سادا سی کیپ سے چار چھ ماہ گزار کے بال آنے کا انتظار ہو سکتا ہے۔Chemoکی مریضاؤں کو ایک Planبنا کے دیا جاتا ہے۔اگر آپ کے حالات اجازت نہیں دیتے تو آپ ڈاکٹروں سے کہہ کر مالی امداد بھی لے سکتی ہیں۔
اب تو ایسی نئی ادویات جنہیں Targeted کہا جاتا ہے وہ بھی دستیاب ہو رہی ہیں جو جسم کے دوسرے عضویات کو متاثر کئے بغیر صرف مطلوبہ جگہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔آپ کے بال پھر آسکتے ہیں مگر زندہ باقی نہ رہی تو آپ کا گھرانہ جذباتی بحران میں مبتلا ہو سکتا ہے۔یاد رکھیئے کہ ایک صحت مند عورت ہی سے گھرانہ تندرست رہ سکتا ہے اور خاتون آپ تندرست تو آپ کا گھرانہ بھی صحت مند رہے گا۔

احتیاطی تدابیر
ہر 40 برس کی عمر کو پہنچنے والی خاتون سال میں کم از کم ایک بار میمو گرام کروا لیا کرے۔خاص کر وہ جن کے خاندان میں کینسر کی بیماری موجود ہو۔وراثت میں چلنے والی بیماریوں کی روک تھام ممکن نہیں مگر علاج معالجہ بروقت ہو سکتا ہے۔
ہر ماہ ایام کے بعد اپنے بریسٹ کا آئینے میں جائزہ لیں۔کوئی غیر معمولی تبدیلی یا دانہ وغیرہ ہو تو فزیشن کے بجائے کینسر کی ماہر ڈاکٹر سے معائنہ کرائیں۔
بایوپسی سے نہ گھبرائیں۔
اگر ایام میں بے ترتیبی ہو یا دیر سے ایام ہوں تو بھی ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔
ہری سبزیاں،پھل زیادہ اور سرخ گوشت کم سے کم کھائیں،تمباکو نوشی سے منشیات سے مکمل پرہیز بے حد ضروری ہے۔
ہر روز نہیں تو ہفتے میں تین سے چار روز 45منٹ کی تیز قدمی جیسی ورزش ضرور کر لیں تاکہ فٹ رہیں۔
ایسی نوجوان خواتین جو کینسر کے علاج کے بعد صحت یاب ہو جاتی ہیں وہ نئی اولاد کو بھی جنم دے سکتی ہیں۔پہلے درجے کی مریضائیں 93 فیصد تک صحت یاب ہو کر خوشگوار زندگی کی طرف لوٹ جاتی ہیں،پھر انہیں سال بھر یا چھ ماہ کے لئے مختلف معائنوں کی ضرورت پڑتی ہے وہ بھی محض دل کی تسلی کے لئے !

Browse More Cancer