Khushbu Bata Deti Hai Is Phal Ka Pata - Article No. 2573

Khushbu Bata Deti Hai Is Phal Ka Pata

خوشبو بتا دیتی ہے اس پھل کا پتہ - تحریر نمبر 2573

امرود دل و دماغ کو قوت و فرحت بخشنے والا بہترین پھل ہے یہ دل کی گھبراہٹ دور کرتا ہے‘معدے کو طاقت دیتا ہے مزیدار فروٹ چاٹ کی تیاری امرود کے بناء ناممکن ہے

پیر 7 نومبر 2022

افشین حسین بلگرامی
امرود منفرد خوشبو کا حامل وہ مزیدار پھل ہے جس کی خوشبو ہی اس پھل کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔فروٹ چاٹ وہ مزیدار فروٹی سویٹ ڈش ہے جسے ہمارے یہاں بچے بڑے سب ہی بڑے ذوق و شوق سے کھاتے ہیں یوں تو اب طرح طرح کے انداز میں مختلف پھلوں اور کریم وغیرہ کی شمولیت سے بے شمار اقسام کی فروٹ چاٹ تیار کی جا رہی ہیں‘لیکن روایتی فروٹ چاٹ کی تیاری میں جس پھل کو اہم و ناگزیر حیثیت حاصل ہے وہ منفرد خوشبو کے حامل لذب دار پھل امرود کی ہے۔
امرود منطقہ حارہ یعنی ٹروپیکل خطے میں بکثرت اُگنے والا مزیدار پھل ہے۔امرود کا نباتاتی نام (ساڈیم گوجاوا) ہے‘گہرے سبز سے لے کر پیلی سنہری رنگت اور بالکل گول یا بیضوی ساخت سے لے کر گھنٹی نما ساخت تک امرود کی بے شمار اقسام موجود ہیں چھوٹی سائز کی خوبانی سے لے کر بڑے سائز کے سیب یا ناشپاتی کے سائز تک میں یہ پھل دستیاب ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

امرود کی بیرونی جلد کی نرمی‘ہمواریت یا کھردرا پن بھی اس کی اقسام پر منحصر ہوتا ہے۔


امرود کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اسے درخت سے تب ہی توڑنا چاہیے کہ جب یہ اچھی طرح پک جائے ورنہ کچی حالت میں امرود کھانے کے بالکل بھی قابل نہیں رہتا اور اگر کھا بھی لیا جائے تو یہ نرا قبض و تیزابیت پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ گرمیوں کی بھری دوپہر میں امی‘بابا کی نظروں سے چھپ کر دوستوں کے ساتھ امرود کے درختوں پر چڑھ کر اندھا دھند امرود توڑے جاتے اور پھر باجی کی نظروں سے بچ بچا کر چکن میں سے نمک‘مرچیں مٹھی میں بھر کر انہی درختوں کی شاخوں پہ بیٹھ کر جھولی میں بھرے کچے پکے امرود نمک‘مرچ کے ساتھ چٹخارے لے لے کر کھائے جاتے اور جو امرود اتنے کچے ہوتے کہ جنہیں چبانے میں دانت کچکچا ہی جاتے تو پھر ان سے کارتوس کا کام لیا جاتا ہے اور غلیل میں رکھ رکھ کر دوستوں سے اگلا پچھلا تمام حساب برابر کر لیا جاتا‘لیکن اس کے باوجود ان کچے پکے امرود کو درخت سے توڑ کر کھانے میں جو مزہ تھا وہ آج بازار میں ٹھیلوں پہ دستیاب خوشبو اُڑاتے پکے پکے لذیذ امرود خرید کر کھانے میں کہاں۔
اگرچہ صنعتی پیمانے پر امرود کے باغوں سے جو امرود درخت سے توڑ کر مارکیٹ میں فروخت کے لئے پیش کیے جاتے ہیں انہیں درخت سے اتنی کچی حالت میں توڑا جاتا ہے کہ وہ ایک دن پیٹی میں بند رہنے کے بعد پک جائیں کیونکہ مکمل طور پر پکے ہوئے امرود جلد خراب ہو جاتے ہیں اور ان میں کیڑا لگنے کا احتمال بھی زیادہ ہوتا ہے۔
امرود کا گودا سفید‘کریمی مائل پیلے اور گلابی رنگت کا حامل ہوتا ہے یہ گودا ننھے ننھے بے شمار (کھانے کے قابل Edible) بیجوں سے بھرپور ہوتا ہے۔
امرود کی سب سے بڑی خصوصیت اس پھل کی منفرد مہک ہے جو دور سے ہی اس کی موجودگی کا خوشبو دار اعلان کر دیتی ہے۔پھر لال یا گلابی گودے والے امرود کی بات کی جائے تو اس کی خوشبو پیلے یا سفید گودے کے امرود کے مقابلے میں ایک جداگانہ مہک رکھتی ہے۔امرود کے ذائقے کو یوں تو رسیلا اور ترشی مائل میٹھا کہہ سکتے ہیں لیکن گلابی یا لال گودے والے امرود کا ذائقہ یا تو بہت منفرد اور مزے دار ہوتا ہے یا پھر انتہائی میٹھا ہمارے یہاں یعنی پاکستان میں امرود کی دو اقسام بہت مشہور ہیں ایک ملیرکے امرود جنہیں ملیرکے جام بھی کہا جاتا ہے یہ بالکل گول ساخت کے حامل اور پک جانے کے بعد بھی ہرے رنگ کے نظر آتے ہیں جبکہ ایک لاڑکانہ کے امرود (سندھی میں امرود کو جام بولتے ہیں) یا لاڑکانہ کے جام ہیں جو کہ گھنٹی نما ساخت کے حامل ہوتے ہیں۔

غذائیت سے بھرپور اس پھل کو پوری دنیا میں بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے۔غذائی مورخین کے مطابق امرود کی جنم بھومی میکسیکو ہے جہاں سے یہ پھل پیرو‘اسپین‘پرتگال پہنچا اور پھر فلپائن کے ساحلی علاقوں سے ہوتا ہوا ہندوستان کی سرزمین پر پہنچا اور ہندوستان کی سرزمین پر پہنچتے ہی یہ پھل انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ منطقہ حارہ کے دیگر استواتی خطوں (Tropical Regions) میں پھیلتا چلا گیا۔
یہاں صنعتی پیمانوں پر بھی اس کے باغات لگائے گئے اور کچھ علاقوں میں تو یہ خودرو درخت کی شکل میں اُگنا بھی شروع ہو گئے یعنی ہندوستان کی زرخیز مٹی و آب و ہوا اس پھل کے پنپنے کے لئے بہت راس آئی۔موجودہ دور میں آسٹریلیا‘ویسٹ انڈیز‘افریقہ‘ہوائی اور برازیل وغیرہ میں بھی امرود کے درخت اُگائے جا رہے ہیں۔
امرود میں اتنی کثیر مقدار میں وٹامن C پایا جاتا ہے کہ یہ مقدار کسی بھی نوع کے سائٹرس پھل (Citrus Fruit) میں موجود وٹامن C کی مقدار سے دس گنا زائد ہے۔
یہ پھل اگر کچا کھایا جائے تو تبخیر و قبض کی شکایت پیدا کر سکتا ہے لیکن اگر پکا پھل کھایا جائے تو یہ قبض کشا ثابت ہوتا ہے۔امرود دل و دماغ کو قوت و فرخت بخشنے والا بہترین پھل ہے اسی لئے دل کی گھبراہٹ دور کرتا ہے‘معدے کو طاقت دیتا ہے اور بھوک بڑھاتا ہے۔قبض کشا ہونے کی وجہ سے بواسیر کے لئے بھی مفید ہے۔امرود کے بیج پیٹ کے کیڑے خارج کرتے ہیں۔
امرود کی منفرد خوشبو متلی و ابکائی آنے کی شکایات کا خاتمہ کرتی ہے۔
امرود کے پتوں سے تیار شدہ جوشاندے سے غرارے کرنا قے و دستوں کی شکایات کا خاتمہ کرتا ہے۔یہاں قارئین کے ساتھ امرود کے پتے کے حوالے سے ایک دلچسپ بات بھی شیئر کرتی چلوں کہ ستر کی دہائی جہاں سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں دل دکھاتی ناخوشگواریت و بے یقینی صورتحال کا سیلاب لے کر آئی تھی وہیں پاکستان کے مغربی خطے میں بسنے والے پان کے شوقین افراد کے لئے بھی کوفت و پریشانیوں کا سندیس لئے آئی تھی کیونکہ سقوط کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان سے دیگر اشیاء خوردنوش کے ساتھ ساتھ پان کی درآمد پر بھی پابندی لگ گئی تھی اور اس وقت نہ اور کہیں سے پان درآمد کیا جاتا تھا اور نہ ہی یہاں پان کی کاشت کی جاتی تھی نتیجتاً کتھا چونا چھالیہ تمباکو تو سب موجود لیکن پان کا پتہ ندارد!تو ایسے میں سنتے ہیں کہ پان کے شوقین افراد نے پان کے پتے کی کمی امرود کے پتے سے پوری کی۔
ابتداء میں کسی نے تجرباتی طور پر امرود کے پتے پر چونا کتھا لگا کر چھالیہ کو چھڑک کر بیڑا بنا کر پان کی تشنگی پوری کی اور دیکھتے ہی دیکھتے چند روز میں ہی علاقوں میں موجود ہر امرود کا درخت دیکھیں تو پتوں کے بغیر کھڑا ہے یہاں تک کہ بعض درختوں پر تو امرود بھی پکے یا نیم پکی حالت میں لگے ہیں اور پان کے شوقین افراد نے پتوں کا صفایا کر دیا۔بلغم و کھانسی سے پریشان افراد اگر کچا امرود بھبھول میں پکا کر کھائیں تو انہیں مرض سے فوری چھٹکارہ حاصل ہو گا۔

Browse More Ghiza Kay Zariay Mukhtalif Bemarion Ka Elaaj