Machli Ka Gosht Aur Tail Dono Mufeed - Article No. 2568

Machli Ka Gosht Aur Tail Dono Mufeed

مچھلی کا گوشت اور تیل دونوں مفید - تحریر نمبر 2568

جو افراد کسی بھی وجہ سے مچھلی نہیں کھا سکتے،وہ مچھلی کے تیل کے ضمیمے کھا سکتے ہیں

پیر 31 اکتوبر 2022

عمران سجاد
مچھلی میٹھے پانی کی ہو یا سمندر کی،قدرت کا ایک عظیم عطیہ ہے۔یہ ایک عمدہ اور زود ہضم غذا ہی نہیں،بلکہ کئی امراض کا موٴثر علاج بھی ہے۔چکنی یا روغنی مچھلیاں مثلاً سرمئی،سارڈین،میکریل اور تلوار مچھلی اپنی اومیگا۔3 چکنائیوں کی وجہ سے قلب اور شریانوں کی محافظ ثابت ہوتی ہیں۔صرف یہی نہیں،بلکہ ان چکنائیوں کی بدولت جسم کی قوتِ مدافعت بڑھتی اور مستحکم ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ روغنی مچھلیاں ہمیں بہت سے امراض سے محفوظ رکھتی ہیں۔ایک امریکی طبی ادارے کے ماہرین کے مطابق اگر ہم اعتدال کے ساتھ مچھلی کھاتے ہیں تو ہمارے لئے حملہ قلب سے مرنے کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے۔اگر مچھلی ہفتے میں ایک دو بار ہی کھا لی جائے تو جان لیوا حملہ قلب کا خطرہ 36 فیصد کم ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

مچھلی صرف دل کے لئے ہی نہیں،بلکہ دماغ کے لئے بھی مفید ہے۔

مچھلی کے شائقین کو فالج کے حملوں سے بھی کم واسطہ پڑتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق تو فالج کا خطرہ 40 فیصد کم ہو جاتا ہے اور اب اس بات کے شواہد میں اضافہ ہو رہا ہے کہ اومیگا۔3 چکنائیاں ہمارے دماغ کو اُس کے روزمرہ کے کاموں میں مدد دیتی ہیں۔
فرانس میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق حمل کے دنوں میں جو خواتین ہفتے میں 340 گرام سے زیادہ سمندری غذا کھاتی رہیں،اُن کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کی کسرِ ذہانت (آئی کیو) ان بچوں کے مقابلے میں چھ پوائنٹ زیادہ تھی،جو دوسری غذائیں کھانے والی ماؤں کے شکم سے پیدا ہوئے تھے۔

سویڈن میں کی گئی تحقیق کے مطابق بڑی عمر میں مچھلی کھانے کے شوقین افراد نسیان کے مرض میں نسبتاً کم مبتلا ہوتے ہیں۔میونخ کی ماہر حیاتیات اینڈریافلیمر کے مطابق اومیگا۔3 چکنائیاں فالج سے محفوظ رکھتی ہیں،کیونکہ ان کی وجہ سے دماغ کو خون فراہم کرنے والی رگیں کھلی اور کشادہ رہتی ہیں اور ان میں تنگی اور رکاوٹیں پیدا نہیں ہوتیں۔یہ چکنائیاں ہمیں کئی قسم کے مغزیات،پستے،بادام،اخروٹ،تِل اور السی وغیرہ کے علاوہ مونگ پھلی سے بھی مل سکتی ہیں۔
ان کے علاوہ مچھلیاں بھی ان کا اہم ذریعہ ہوتی ہیں،خاص طور پر زیادہ چکنائی والی مچھلیاں ان مفیدِ صحت چکنائیوں سے بھری ہوتی ہیں۔سرد پانی کی مچھلیاں مثلاً ہیرنگ،میکرل،ٹیونا،مہاشیر اور سامن خاص طور پر ان کا اہم ذریعہ ہیں۔
دنیا بھر میں جو لحمیات (پروٹینز) کھائی جاتی ہیں،اس میں مچھلی کا حصہ ایک فیصد ہے،لیکن مچھلی کے ذریعے لحمیات کے مقدار میں دس فیصد اضافہ ہو سکتا ہے،کیونکہ دنیا کے سمندروں،دریاؤں اور جھیلوں میں وافر مقدار میں مچھلیاں موجود ہیں،چنانچہ ہر جگہ مچھلیوں کی پرورش کو فروغ دیا جا رہا ہے،تاہم اس کی رفتار سست ہے۔
غذائیت کے اعتبار سے مچھلی گوشت اور دودھ کی مصنوعات سے مقابلہ کر سکتی ہے۔مچھلی میں 18 سے 22 فیصد لحمیات ہوتی ہیں۔یہ لحمیات بہ آسانی ہضم ہو سکتی ہیں۔اس کے علاوہ اس میں وہ امینو ایسڈ یا تیزاب بھی ہوتے ہیں،جو انسانی جسم تیار نہیں کر سکتا۔مچھلی میں دیگر اہم غذائی اجزاء مثلاً حیاتین الف،ب اور د (وٹامنز اے،بی اور ڈی) کیلشیم،فاسفورس،فولاد،آیوڈین اور فلورین پائے جاتے ہیں۔
سفید مچھلی عمدہ قسم کی لحمیات کا ذریعہ ہوتی ہے،تاہم اس میں حیاتین الف،ب۔1،ب۔2،ج اور د اور فولاد و کیلشیم کی مقداریں کم ہوتی ہیں۔فربہ مچھلی میں توانائی زیادہ ہوتی ہے۔اس میں حیاتین د اور نکوٹینک ایسڈ زیادہ،لیکن کیلشیم،حیاتین الف،ب۔1،ب۔2،ج کم ہوتی ہیں۔لحمیات کے اعتبار سے مچھلی میں بکری،بھیڑ،گائے اور مرغی کے مقابلے میں زیادہ لحمیات ہوتی ہیں۔

جو افراد کسی بھی وجہ سے مچھلی نہیں کھا سکتے،وہ مچھلی کے تیل کے ضمیمے کھا سکتے ہیں،البتہ ضمیمے کھانے سے وہ مچھلی کی لذت سے محروم رہ جائیں گے۔مچھلی کے گوشت اور مچھلی کے تیل کی افادیت سے لوگ زمانہ قدیم سے قائل ہیں اور اسے دماغ کے لئے مفید غذا سمجھا جاتا رہا ہے۔سترھویں صدی سے مختلف ممالک میں مچھلی کا تیل پیا جا رہا ہے،تاکہ ہڈیوں کی بیماری اور دردوں سے چھٹکارا پایا جا سکے۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق مچھلی کے تیل سے امراضِ قلب کا امکان کم ہو جاتا ہے۔مچھلی کے تیل میں لحمیات کے علاوہ حیاتین الف (وٹامن اے) بھی ہوتی ہے،جو آنکھوں،بالوں اور ناخنوں کے لئے بہت مفید ہے۔مچھلی کے تیل میں حیاتین د (وٹامن ڈی) بھی پائی جاتی ہے،جو دانتوں اور ہڈیوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔اس کے علاوہ تھوڑی سی مقدار آیوڈین اور فاسفورس کی بھی ہوتی ہے،لیکن اس تیل کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں کثیر غیر سیر شدہ روغنی تیزاب یا صحت بخش چکنائیاں ہوتی ہیں،جو اومیگا۔
3 کہلاتی ہیں۔یہ چکنائیاں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرکے ہمیں دل کی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔
جرمنی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ہمیں ہفتے میں ایک بار سفید مچھلی اور دو ٹکڑے روغنی مچھلی کے ضرور کھانے چاہییں،لیکن اگر کوئی فرد اس سے زیادہ کھانا چاہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔جو افراد مچھلی کے تیل کے کیپسول وغیرہ کھائے جا رہے ہیں،ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ معالج کی تجویز کردہ مقدار سے آگے نہ بڑھیں۔
ہالینڈ میں کی گئی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا ہے کہ مچھلی کے گوشت کی طرح مچھلی کا تیل بھی بے حد مفید ہے۔یہ اگرچہ دماغی ٹانک نہیں ہے،لیکن اس سے عصبی پیغام رسانوں (نیورو ٹرانسمیٹرز) کو تحریک ملتی ہے اور وہ سست و کاہل دماغ کو تیز کر دیتے ہیں۔جو افراد بہت زیادہ دماغی کام کرتے ہیں،انھیں ہفتے میں تین دن مچھلی ضرور کھانی چاہیے۔گرم ملکوں میں مچھلی کھانے والے افراد امراض قلب کے علاوہ گردوں کی تکالیف اور فالج وغیرہ سے بڑی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔
مچھلی کا تازہ گوشت ایک نعمت ہے،اس کی قدر کرنی چاہیے،تاکہ صحت جیسی دولت محفوظ رہے۔مچھلیوں کی کئی اقسام بہت مشہور ہیں،مثلاً مورو مچھلی،چپٹی مچھلی،تتلی مچھلی،بام مچھلی،کتا مچھلی،شیر مچھلی،ہتھوڑا مچھلی،نیش مچھلی،ڈولفن اور غبارا مچھلی وغیرہ۔
مچھلی ہمیں بہت سے امراض سے محفوظ رکھتی ہے۔ان امراض میں مسوڑوں کی سوجن اور ان کی عفونت کا مرض قابلِ ذکر ہے،اس مرض کا سبب وہ بیکٹیریا ہیں،جو مسوڑوں کے اطراف جمع ہو جاتے ہیں۔
یہ رفتہ رفتہ مسوڑوں کو چاٹ کر دانت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔اس طرح دانتوں کے درمیان خلا پیدا ہو جاتا ہے اور دانتوں کی ہڈی تک گلنے لگتی ہے،جس سے دانت کمزور ہو کر ہلنے لگتے ہیں اور بالآخر اپنی جگہ سے اُکھڑ جاتے ہیں۔ماہرین صحت کے مطابق مختلف تدابیر کے مقابلے میں مچھلی کا تیل زیادہ موٴثر اور مفید ثابت ہوا ہے۔اصل میں اومیگا۔3 میں دو خاص قسم کے تیزاب پائے جاتے ہیں۔ان تیزابوں کی وجہ سے اس مرض کی شرح متاثرہ افراد میں بہت کم ہوتی ہے۔

Browse More Ghiza Kay Zariay Mukhtalif Bemarion Ka Elaaj