Khud Ko Omicron Virus Se Bachaain - Article No. 2413

Khud Ko Omicron Virus Se Bachaain

خود کو اومیکرون وائرس سے بچائیں - تحریر نمبر 2413

اومیکرون وائرس جب کسی فرد کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے تو ابتداء میں نزلہ زکام ہوتا ہے،گلے میں خراش ہوتی ہے اور سر میں درد ہوتا ہے،یعنی اس کی انفلوئنزا جیسی ہی علامات ہوتی ہیں

پیر 11 اپریل 2022

حکیم حارث نسیم سوہدروی
کورونا وائرس جو چین کے شہر ووہان سے منظرِ عام پر آیا،اب تک کئی شکلیں بدل چکا ہے اور اب پانچویں شکل کی صورت میں دنیا بھر میں تباہی مچا رہا ہے۔اس کی پانچویں لہر یا شکل کا نام اومیکرون وائرس ہے۔اس وقت دنیا میں 35 کروڑ سے زیادہ کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک سب سے زیادہ متاثر ہے،جب کہ برطانیہ،اٹلی،بھارت،ترکی،برازیل،فرانس،اسپین،روس اور جنوبی افریقہ بھی شدید متاثر ہیں۔
چین میں بھی اومیکرون کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔کورونا وائرس کو اس صدی کی سب سے بڑی آفت کہنا درست ہو گا۔اس نے دنیا کے کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا ہے۔اومیکرون وائرس ویکسین سے بھی مزاحمت کر رہا ہے۔
پاکستان میں اومیکرون وائرس رفتہ رفتہ زور پکڑ رہا ہے۔

(جاری ہے)

سندھ کی صورتِ حال زیادہ خراب ہے۔جس طرح یہ تیزی سے پھیل رہا ہے،وہ بہت تشویش ناک ہے۔

اگرچہ ڈیلٹا کی طرح اومیکرون وائرس اتنا خطرناک نہیں ہے،یعنی یہ جان لیوا وائرس نہیں ہے۔اومیکرون وائرس جب کسی فرد کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے تو ابتداء میں نزلہ زکام ہوتا ہے،گلے میں خراش ہوتی ہے اور سر میں درد ہوتا ہے،یعنی اس کی انفلوئنزا جیسی ہی علامات ہوتی ہیں۔اس میں متاثرہ فرد کو بخار بھی ہو سکتا ہے۔کورونا میں سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے،جبکہ اومیکرون میں ایسا نہیں ہوتا اور نہ اس کی علامات میں شدت ہوتی ہے۔

تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 14 لاکھ سے بڑھ چکی ہے اور اموات 30 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہیں،لیکن ہمارے ہاں لوگ احتیاطی تدابیر پر پوری طرح عمل نہیں کر رہے ہیں۔ایک ننھے سے وائرس نے پوری دنیا کا نظام ہلا کر رکھ دیا ہے۔وائرس نظر نہ آنے والی جان دار مخلوق ہے،جس کو خوردبین سے دیکھنا بھی مشکل ہے۔
بیکٹیریا کو البتہ خوردبین سے دیکھا جا سکتا ہے۔
وائرس کئی قسموں کے ہوتے ہیں۔ان میں کانگو وائرس،پولیو وائرس،ایبولا وائرس اور ڈینگی وائرس شامل ہیں۔وائرس ایک ذرے کے ہزارویں حصے کے برابر ہوتا ہے۔یہ ایک خاص قسم کے لحمیے (پروٹین) کے غلاف میں ہوتا ہے،جسے جدید طبی اصطلاح میں خلیے (سیل) کا نام دیا جاتا ہے۔وائرس ہمیشہ زندہ خلیے میں ہی نشوونما پاتا ہے۔
یہ ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہو جاتا ہے۔جب یہ کسی فرد کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے تو خلیے تک رسائی حاصل کر لیتا ہے اور اپنا آر این اے (RNA) خلیے میں داخل کرکے اُس کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اس کے افعال متاثر کرکے اُسے مردہ کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس کے افعال متاثر کرکے اُسے مردہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔وائرس کی نشوونما اور افزائش بہت تیزی سے ہوتی ہے۔
یہ چند گھنٹوں میں خلیے کو متاثر کرکے پورے جسم کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
کورونا وائرس بھی اُن وائرسوں میں سے ایک ہے،جو خوردبین سے بہ مشکل نظر آتا ہے۔یہ اپنی ہیت تبدیل کرکے جانور سے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔پھر اسی طرح ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل ہوتا ہوا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔جانوروں میں پائے جانے والے وائرسوں سے نمٹنے کے لئے انسانی جسم میں مدافعتی قوت تیار نہیں ہوتی۔
یہ وائرس ایک دوسرے کے قریب رہنے،ملنے جلنے،کھانسنے،چھینکنے اور گلے ملنے سے رسائی حاصل کر لیتا ہے،یہاں تک کہ اگر وائرس زدہ ہاتھ سے جسم یا اُس کا کوئی عضو چھو جائے تو یہ جلدی سے اُس جسم میں پہنچ جاتا ہے،نتیجے کے طور پر مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے۔پھر جلد علامات ظاہر ہو جاتی ہے۔علامات ظاہر ہونے کی مدت 14 دن ہے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ وائرس ایک خاص مدت تک ایک جگہ رہ سکتا ہے اور اس مدت میں عموماً 14 دن کے بعد یہ ازخود ناکارہ ہو جاتا ہے۔

وہ افراد جن کی عمر 60 برس سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ ہائی بلڈ پریشر ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں،ان میں اس وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔کورونا وائرس جب کسی فرد میں منتقل ہوتا ہے تو اس کے پھیپھڑوں کو اپنا ٹھکانہ بناتا ہے اور تعدیے (انفیکشن) کا سبب بن کر متاثرہ فرد کو نمونیے کے مرض میں مبتلا کر دیتا ہے۔پھر یہ مرض شدت اختیار کرکے سانس کی نالیوں کو تنگ کر دیتا ہے۔
اس طرح مریض کے جسم میں اوکسیجن کی مقدار کم داخل ہوتی ہے،نتیجتاً سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے مریضوں کو ہسپتال میں مصنوعی تنفس کے لئے وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔اس طرح دماغ کو اوکسیجن ملنے لگتی ہے۔ایسے مریض کی اگر چند منٹ تک کے لئے بھی اوکسیجن رُک جائے تو دماغی بافتیں (ٹشوز) اپنا کام چھوڑ دیتی ہیں،جس کے نتیجے میں دماغ مردہ ہو جاتا ہے۔

اس وائرس سے بچاؤ کا واحد طریقہ سماجی دوری ہے،تاکہ وائرس ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل نہ ہو۔اس طرح وائرس کے بڑھنے اور افزائش کا عمل کم ہو جائے گا،مریضوں کی تعداد بھی گھٹ جائے گی۔جب مریض کم ہو جائیں گے تو وائرس بھی ناکارہ ہو جائے گا۔چین نے اسی طریقے پر عمل کرکے کورونا وائرس پر قابو پایا ہے۔
دوسرے ممالک بھی یہی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔
سماجی تنہائی بہترین علاج ہے۔60 برس سے زیادہ عمر کے وہ افراد،جنھیں ہائی بلڈ پریشر،ذیابیطس یا دل کے امراض لاحق ہیں،ان پر کورونا وائرس شدید حملہ کر سکتا ہے۔سماجی تنہائی کے علاوہ سینی ٹائزر ضرور استعمال کریں،کھانستے اور چھینکتے وقت منہ کو ڈھانپیں،کیونکہ اس طرح متاثرہ مریض کے منہ یا ناک سے خارج ہونے والے لعاب میں شامل یہ وائرس کسی دوسرے صحت مند فرد میں منتقل ہو سکتا ہے۔

یہ وائرس ناک اور سانس کی نالی میں رہتا ہے۔صفائی کا بے حد خیال رکھیں۔اومیکرون سے محتاط رہیے۔ماہرین نے قدرتی نباتات پر جو تجربات کیے ہیں،ان کے مطابق ذیل میں درج خوردنی اشیاء کورونا وائرس کے خلاف موٴثر ثابت ہوئی ہیں۔یہ اشیاء سستے داموں بہ آسانی دستیاب ہیں اور اس وائرس کے علاوہ کئی دوسرے امراض سے بچاؤ کا سامان بھی کرتی ہیں۔یہ مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہیں۔ان اشیاء میں لہسن،دار چینی،ملیٹھی،کڑی پتا،سرخ کھجور،انار،ادرک اور کالا زیرہ شامل ہیں۔

Browse More Healthart