Pagal Awara Kuttoon Se Hoshiyar - Article No. 1806

Pagal Awara Kuttoon Se Hoshiyar

پاگل ،آوارہ کتوں سے ہو شیار - تحریر نمبر 1806

”ریبیز“(RABIES) ،یعنی کتے کے کاٹنے کا وائرس دراصل چند مخصوص جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو کر دماغ اور اعصابی نظام کو متاثر کرتاہے

منگل 11 فروری 2020

پروفیسر ڈاکٹر سید اقبال عالم
”ریبیز“(RABIES) ،یعنی کتے کے کاٹنے کا وائرس دراصل چند مخصوص جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو کر دماغ اور اعصابی نظام کو متاثر کرتاہے ،تاہم اس کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب پاگل ،آوارہ کتے کا کاٹنا ہے۔ اس مرض کا تعلق (RHABDOVIRIDAE) گروپ سے ہے، جو ایک آر این اے(RNA) وائرس ہے اور بندوق کی گولی(BULLET)سے مماثلت رکھتا ہے۔
یہ کتے ،بلی، لومڑی اور گیدڑ کے لعاب میں پایا جاتاہے ،لہٰذا مذکورہ جانور،خاص طور پر کتا اگر اپنے دانت کسی انسان کی جلد میں گاڑ دے تو شگاف یا زخم کے ذریعے سگ گزیدگی(کتے کا کاٹنا)کے وائرس اُس کے جسم میں منتقل ہو جاتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ کتے کے کاٹنے کا زخم گہرا ہو۔ بعض کیسوں میں معمولی خراش سے بھی وائرس انسان میں منتقل ہو جاتاہے ،تاہم بیماری کی علامات ظاہر ہونے اور وائرس کی افزائش کا دارومدار کتے کے لعاب میں پائے جانے والے وائرسوں کی تعداد پر ہوتاہے ۔

(جاری ہے)


نیز جسم کے جس حصے میں کتے نے کاٹا ہو،وہ جتنا دماغ کے نزدیک ہو گا، علامات اتنی ہی جلد ظاہر ہوں گی ،تاہم علامات ظاہر ہونے تک وائرس خاموشی سے افزائش نسل میں مصروف رہتے ہیں۔طبی اصلاح میں اس دورانیے کو ”مدت اخفائے مرض“(INCUBATION PERIOD) کہا جاتاہے۔عمومی طور پر کم سے کم دس دن اور زیادہ سے زیادہ دو سال تک علامات ظاہر ہو جاتی ہیں۔سگ گزیدگی کا وائرس جب زخم کے ذریعے جسم میں داخل ہوتاہے تو ابتدائی نشوونما کے بعد متاثرہ جگہ کی عضلاتی بافتوں(ٹشوز)سے بتدریج اعصابی خلیات (NERVE CELLS) تک رسائی حاصل کرکے دماغ اور ہڈی کے گودے میں سرایت کر جاتا ہے اور یہی وہ مقام ہے ،جہاں وائرس تیزی سے نمو پاتاہے ۔
بعدازاں دماغ کے بافتی خلیات (TISSUE CELLS) بُری طرح متاثر ہو جانے کے نتیجے میں دماغی افعال کا توازن بر قرار نہیں رہتا۔ابتداء میں مریض کو زخم کی جگہ درد اور خارش محسوس ہوتی ہے ،جس کے بعد ظاہر ہونے والی علامات میں سر کا درد،ہلکا بخار،کثرت سے رال کا بہنا،چکر آنا،اضمحلال وافسردگی(ڈپریشن)، بے چینی،چڑچڑاپن،غذا نگلنے میں دشواری ،پاگل پن کا دورہ اور خاص طور پر پانی سے خوف شامل ہیں ۔
اسی وجہ سے سگ گزیدگی کو”ہائڈروفوبیا“(HYDROPHOBIA)، یعنی پانی سے خوف کا مرض بھی کہا جاتاہے۔
مرض کو شدت کے اعتبار سے دو درجوں میں منقسم کیا جاتاہے ۔کم شدت والے درجے میں خاموشی یا گم صم ہو جانا، لاغرپن،بے تعلقی، کمزوری اور فالج جیسی علامات شامل ہیں،جب کہ زیادہ شدت والے درجے میں مریض کے طرز عمل میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے،مثلاً مائل بہ تشدد ہو جانا،بد کلامی،بدزبانی کرنا،جنونی کیفیت یا اضمحلال وافسردگی میں مبتلا رہنا۔
نیز پانی دیکھ کر دہشت کا شکار ہو جانے کے علاوہ پاگل پن کے دورے بھی پڑتے ہیں۔مریض کا جسم جھٹکے لینے لگتاہے،بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے اور سانس لینے میں اس حد تک دشواری پیش آتی ہے کہ جان تک جا سکتی ہے۔مرض کی تشخیص مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے،مثلاً اگر کوئی آوارہ کتا کاٹ لے تو اُسے پکڑ کرکچھ دنوں کے لئے زیر مشاہدہ رکھتے ہیں، تاکہ کتے کو غذا اور پانی دیتے ہوئے یہ دیکھا جا سکے کہ اس میں کوئی منفی اثرات تو پیدا نہیں ہوئے۔
نیز اس مشاہدے میں کتے میں پاگل پن کے دوروں کا بھی مشاہدہ کیا جاتاہے ،جیسے بے تحاشا بھونکنا ،ہر ایک پر کاٹنے کے لئے جھپٹنا یا جسم میں تشنج کی کیفیات کا ظاہر ہونا وغیرہ ۔
علاوہ ازیں متاثرہ فرد کے دماغ کی بافتوں ،حرام مغز اور دہنی غدود(SALIVARY GLANDS)کے نمونے حاصل کرکے بھی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔رہی بات علاج کی تو اس کے لئے ماضی میں 14ٹیکوں کا کورس مکمل کروایا جاتا تھا،لیکن اب نئی ویکسین متعارف کروائی گئی ہے،جس کے چند ٹیکے ہی کافی ہو تے ہیں۔
سگ گزیدگی سے بچاؤ کی ویکسین کتے کے کاٹنے کے فوری بعد لگائی جاتی ہے،تاکہ پاگل پن کے دورے اور دیگر پیچیدگیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔نیز فوری مدافعت حاصل کرنا بھی ضروری ہوتاہے ،جس کے لئے تیار شدہ ضد اجسام (ANTIBODIES) کا ٹیکا لگاتے ہیں ،جس کی مقدار کا تعین صرف ایک مستند ڈاکٹر ہی کرتاہے ۔اگر خدانخواستہ کسی کو پاگل کتا یا اس مرض کا سبب بننے والا کوئی دوسرا جانور کاٹ لے تو سب سے پہلے خراش یا زخم والے حصے کو جراثیم کش محلول یا صابن سے دس سے پندرہ منٹ تک دھو کر صاف کرلیں۔
پھر فوری طور پر قریبی ہسپتال ،جہاں سگ گزیدگی کے علاج اور ویکسی نیشن کی سہولت میسر ہو لے کر جائیں۔
کئی ممالک میں سگ گزیدگی کے خاتمے کے لئے کتوں کی بھی ویکسی نیشن کی جاتی ہے ،تاکہ انسانی جانیں محفوظ رہ سکیں،لہٰذا ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس پالیسی ترتیب دے اور ساتھ ہی چھوٹے بڑے شہروں میں سگ گزیدگی کے واقعات کو قابو میں کرنے والے مراکز(ریبیز کنٹرول سینٹرز)بھی قائم کیے جائیں،جہاں نہ صرف چوبیس گھنٹے ویکسین دستیاب ہو،بلکہ طبی عملہ بھی موجود ہو۔
عام طور پر سگ گزیدگی کی ویکسی نیشن سرکاری یا پھر نجی ہسپتالوں ،خاص طور پر دیہی علاقوں کے ہسپتالوں میں ویکسین میسر نہیں ہوتی ،جب کہ نجی ہسپتالوں سے علاج عام آدمی کے بس کی بات نہیں ،لہٰذا محکمہ صحت کی جانب سے خاص طور پر ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ افراد جنہوں نے گھروں میں شوقیہ طور پر یا پھر حفاظت کے لئے کتے پال رکھے ہیں تو ان کی باقاعدگی سے ویکسی نیشن بھی کروائیں ۔

چڑیا گھروں میں کام کرنے والوں میں بھی سگ گزیدگی کا خطرہ رہتاہے،لہٰذا حفاظتی اقدامات کے طور پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اُن میدانوں ،گلیوں،محلوں میں جہاں کتوں کے کاٹنے کا خطرہ ہو،بغیر نگرانی نہ کھیلنے دیں، نہ کسی کام وغیرہ کی غرض سے اکیلے جانے دیں۔اس ضمن میں ماضی میں بلدیات کے تحت ہونے والی ”کتا مار مہمات“کافی نتیجہ خیز ثابت ہوتی تھیں ،لیکن اب تو صورت حال یہ ہے کہ بلدیات اپنی بنیادی ذمے داریوں کی ادائی ہی سے بری الذمہ ہے ،کجا کہ کتا مار مہم کا آغاز کیا جائے ۔شہروں اور دیہات میں آوارہ کتوں کی بہتات ہے اور شہری”اپنی مدد آپ “ہی کے تحت بچاؤ کا کچھ سامان کر رہے ہیں۔

Browse More Healthart