Science Or Wabai Amraz - Article No. 2018

Science Or Wabai Amraz

سائنس اور وبائی امراض - تحریر نمبر 2018

وہ بیماری جس نے کئی صدیوں تک انسانیت کو خوف میں مبتلا رکھا،بالآخر طبی سائنس کے ہاتھوں شکست کھا کر فنا ہو گئی

جمعہ 27 نومبر 2020

یاسر پیرزادہ
چودھویں صدی کا طاعون انسانی تاریخ کی سب سے خوف ناک وبا تھی۔ یہ وبا چین سے شروع ہوئی اور 1347ء میں اٹلی کے شہر سسلی پہنچ گئی ،دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بستیوں اُجاڑ دیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وباکے نتیجے میں ساڑھے سات کروڑ سے بیس کروڑ لوگ مارے گئے۔ یورپ کا تقریباً تیس فیصد علاقہ اس سے شدید متاثر ہوا۔
1400ء تک طاعون کی وجہ سے انگلستان کی آبادی نصف رہ گئی اور اگلے ڈیڑھ سو برس تک یورپ اپنی آبادی کی وہ سطح نہ چھو سکا،جو طاعون سے پہلے تھی۔
اُس زمانے کے ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ یہ بیماری غیر دفن شدہ لاشوں کے تعفن یا ایسی ہی کسی ماحولیاتی گندگی کی وجہ سے پھیلی ہے، جب کہ عام لوگوں کے خیال میں یہ کوئی عذاب تھا یا پھر زلزلوں کا نتیجہ۔

(جاری ہے)

بہت سے عیسائیوں نے اس کا الزام یہودیوں کو دیا اور کہا کہ انھوں نے پانی میں زہر ملایا تھا،جس کی وجہ سے یہ وبا پھیلی اور ثبوت کے طور پر وہ یہ کہتے کہ طاعون سے مرنے والے یہودیوں کی تعداد بہت کم ہے۔

اس الزام کے نتیجے میں یہودیوں کی بستیوں کو تباہ کرکے انھیں قتل کر دیا گیا۔ اُس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آیا کہ اس بیماری کا تعلق پسوؤں میں پائے جانے والے بیکٹیریا سے بھی ہو سکتا ہے۔
اس خوف ناک وبا نے یورپ پر دور رس اثرات مرتب کیے،جاگیرداروں کی زمینوں پر کام کرنے والے مزارع بڑی تعداد میں اس کا شکار ہو کر مر گئے،نتیجے میں زمینوں پر کاشت نہ ہو سکی،مزارعوں کو اُجرتیں بڑھ گئیں اور جاگیرداری کو شدید دھچکا لگا۔
فنون لطیفہ میں مایوسی وقنوطیت غالب آگئی،مصوری میں زندگی کی بے معنویت کا اظہار ہونے لگا اور عام لوگ زندگی کے بارے میں غیر یقینی پن کا شکار ہو گئے۔
2010ء سے 2015ء کے دوران دنیا بھر سے طاعون کے صرف 3248کیس سامنے آئے،جن میں 1584 اموات ہوئیں،آج ضد حیوی ادویہ (اینٹی بائیو ٹکس) کی وجہ سے طاعون ایک قابل علاج بیماری ہے۔ چیچک تین ہزار سال پرانی بیماری ہے،بڑے بڑے بادشاہ اس بیماری کا شکار ہو کر مرے۔
اٹھارھویں صدی تک سویڈن اور فرانس میں پیدا ہونے والا ہر دسواں بچہ اور روس میں ہر ساتواں بچہ چیچک سے مر جاتا تھا۔ اس صدی میں صرف یورپ میں چھے کروڑ لوگ چیچک سے ہلاک ہوئے۔ پچاس کی دہائی تک ہر سال پانچ کروڑ افراد چیچک کا شکار ہوا کرتے تھے،جب کہ 1967ء تک یہ تعداد کم ہو کر ایک سے ڈیڑھ کروڑ رہ گئی۔ چیچک کا آخری مریض صومالیہ میں 1977ء میں دریافت ہوا اور 1980ء تک سائنس دانوں کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں دنیا میں چیچک کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔

وہ بیماری جس نے کئی صدیوں تک انسانیت کو خوف میں مبتلا رکھا،بالآخر طبی سائنس کے ہاتھوں شکست کھا کر فنا ہو گئی۔ بیماریوں اور وباؤں کی ایک طویل فہرست ہے،جن سے انسان صدیوں سے لڑتا آیا ہے۔ ان میں سے بہت سی بیماریوں کو طبی سائنس شکست دے چکی ہے اور کچھ کی ویکسین ایجاد ہو چکی ہے،جسے استعمال کرکے پولیو جیسے مرض سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
کالی کھانسی،خناق، ٹی بی اور ٹائیفائیڈ جیسے امراض جو انسان کے لئے موت بن جاتے تھے،آج ضد حیوی ادویہ اور ویکسین کے سامنے قریباً بے بس ہو چکے ہیں۔
بیسویں صدی میں طبی سائنس کی سب سے بڑی دریافت ”ضد حیوی دوا“ ہے۔ پنسلین کی ایجاد سے اس کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے لوگ مختلف قسم کے متعدی امراض میں مبتلا ہو کر اسپتال میں ایڑیاں رگڑا کرتے تھے۔
انسان کے علم میں یہ بات تو تھی کہ بیکٹیریا اور پھپھوند (فنگس) کے مرکبات مل کر ضد حیوی دوا بناتے ہیں،جو بیماری پیدا کرنے والے بیکٹیریا کا خاتمہ کر سکتی ہے،مگر صحیح معنوں میں پہلی ضد حیوی دوا بنانے کا سہرا سرالیگزینڈر فلیمنگ کے سر جاتا ہے،جنھوں نے پنسلین دریافت کرکے انسانیت پر ایک احسان عظیم کیا۔
دوسری جنگ عظیم میں ضد حیوی ادویہ نے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچائیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وبائی امراض اور بیماریاں اب بھی موجود ہیں،جن کا علاج تاحال دریافت نہیں کیا جا سکا،جیسے ایچ آئی وی اور تازہ ترین کورونا وائرس،مگر یہ بات بھی ہمارے سامنے کی ہے کہ بہت سے وبائی امراض،جیسے سوائن فلو،ایبولا،زیکا وائرس یا سارس کا خطرہ اتنا نہیں رہا،جتنا غلغلہ چند سال پہلے تھا۔ ایچ آئی وی یا سرطان کا شکار ہونے والے افراد جنھیں تیس چالیس سال پہلے تک یقینی موت کا سامنا ہوا کرتا تھا،اب مہنگا ہی سہی پر اتنا علاج ضرور کروا سکتے ہیں کہ زندہ رہ سکیں اور سرطان کی تو کئی قسموں کا مکمل علاج بھی ممکن ہے،بے شمار مریض صحت یاب ہو کر بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔

میں کوئی ڈاکٹر تو نہیں،مگر طبی سائنس سے تھوڑی بہت دلچسپی ضرور ہے۔ ضد حیوی ادویہ کا”مداح“ہوں،مگر یہ خوف بھی دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں زیادہ کھانے سے ضد حیوی ادویہ کے خلاف جسم میں مزاحمت نہ پیدا ہو جائے ،طبی زبان میں جسےRESISTANCE TO ANTIBIOTICS کہتے ہیں۔ دراصل کچھ بیماریاں وائرل ہوتی ہیں اور کچھ بیکٹیریل۔ وائرل بیماریاں چونکہ وائرس کی وجہ سے پھیلتی ہیں،سو ان میں ضد حیوی ادویہ کام نہیں کرتیں،جیسے کورونا وائرس،مگر بیکٹیریل بیماریوں کے لئے ضدحیوی دوا تیر بہ ہدف ہے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ چند سال پہلے کے سائنس دانوں نے ”ٹیکسیوبیکٹن“ (TEIXOBACTIN) نام کی ایک ایسی ضد حیوی دوا بنالی ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ نہ صرف ہر قسم کے بیکٹیریا کا خاتمہ کر سکتی ہے،بلکہ اس کے کھانے سے جسم میں مزاحمت بھی پیدا نہیں ہو گی۔ وائرل بیماریوں کے لئے سائنس دان ویکسین ایجاد کرتے ہیں،جیسے پولیو،خسرہ،فلو اور ہیپاٹائٹس وغیرہ ،جو ہمیں لگوانی چاہییں۔
کورونا وائرس پر اب تک جو محدود تحقیق ہوئی ہے،اس کے مطابق ”کلوروکوئن“ (CHLOROQUINE)جو ملیریا کے لئے موٴثر دوا ہے۔ یہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے نمونیا کے علاج میں بھی موٴثر ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ اموات وائرس کی وجہ سے نہیں ہوتیں، بلکہ زیادہ تر کیسوں میں نمونیے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ سو خاطر جمع رکھیں ،کورونا وائرس کی ویکسین بھی بن جائے گی۔ اللہ سے ہمیں دعا مانگنی چاہیے اور ڈاکٹر سے دوا بھی۔

Browse More Healthart