Sehat Ki Aik Bari Dushman Bethne Ki Bimari - Article No. 2435

Sehat Ki Aik Bari Dushman Bethne Ki Bimari

صحت کی ایک بڑی دشمن بیٹھنے کی بیماری - تحریر نمبر 2435

عالمگیر مہلک وبا کا رُخ اختیار کرتی جا رہی ہے

منگل 10 مئی 2022

امریکی انسٹیٹیوٹ فار میڈیسن اینڈ پبلک ہیلتھ کے ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آج کل کئی لوگ ایک ہفتے میں چھپن گھنٹے یعنی تقریباً ڈھائی دن گملے میں لگے پودے کی طرح ساکت و جامد زندگی گزارتے ہیں۔یہ چھپن گھنٹے یا تو وہ اپنے کمپیوٹر اسکرین کے سامنے ماؤس اور کی بورڈ سے کھیلتے ہوئے یا گاڑی کی ڈرائیونگ کے دوران اسٹیرنگ وہیل کو گھماتے ہوئے یا صوفے میں دھنس کر ٹیلی ویژن اسکرین سے آنکھیں چار کرتے ہوئے صرف کرتے ہیں۔

تقریباً چھ ہزار دس افراد پر مشتمل سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین،مردوں کے مقابلے میں زیادہ غیر متحرک (Sedentary) زندگی گزار رہی ہیں کیونکہ انہیں گھر سے باہر کھیلے جانے والے اسپورٹس سے کم ہی دلچسپی ہوتی ہے۔اگر وہ کام پر جاتی بھی ہیں تو ان میں زیادہ بھاگ دوڑ اور محنت مشقت کا کام نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

ہو سکتا ہے بعض لوگ اپنے بارے میں یہ گمان کریں کہ ان کی زندگی بڑی چاق و چوبند اور سرگرم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر افراد دن کا بڑا حصہ بیٹھ کر گزارتے ہیں۔

ہمارا یہ طرز عمل ہمیں بیمار ڈال رہا ہے۔اس کی صورتیں البتہ مختلف ہیں۔کہیں وہ موٹاپے کی صورت میں نظر آتی ہے،کہیں دل کی بیماریوں کے روپ میں اور کہیں ذیابیطس کی حالت میں۔
دور جدید کے یہ تمام رویے اتنے زیادہ غیر صحت مند ہیں کہ طبی علوم میں ایک نئی اصطلاح Inactivity Physiology اختراع کی گئی ہے۔اس میں ہماری مستقل بیٹھنے کی عادت اور جدید ٹیکنالوجی کے سہارے زندگی گزارنے کے طور طریقوں کے اثرات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔
یہ مہلک رجحان ایک عالمگیر وبا کا رُخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔اسے ریسرچرز نے ”بیٹھنے کی بیماری“ (Sitting Disease) کا نام دیا ہے۔
Move a Little, Lose a Lot نامی کتاب کے مصنف ڈاکٹر جیمز لیوین نے کہا ہے کہ ہمارا جسم بنیادی طور پر اس لئے تخلیق کیا گیا تھا کہ جسم حرکت کرتا رہے۔ہم سے پہلے کی ہزاروں نسلوں نے مسلسل بھرپور جسمانی سرگرمیوں میں مصروف رہ کر زندگی گزاری۔
یہی اس دور کا ماحول تھا لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ جب انٹرنیٹ آیا اور کام کا دورانیہ بڑھتا گیا تو وہ سابقہ ماحول کہیں کھو گیا۔
الیکٹرانک طرز زندگی سے سہولتیں تو بہت میسر آئیں لیکن ہماری روزمرہ زندگی سے سرگرمی معدوم ہوتی گئی۔اب لوگ کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھ کر شاپنگ کر سکتے ہیں،بلوں کی ادائیگی کر سکتے ہیں یہاں تک کہ روزگار سے بھی جڑ سکتے ہیں۔
Facebook اور Twitter کی سہولتیں شامل کر لیں تو دوستوں سے اسی اسکرین پر گپ شپ اور ملاقاتیں بھی ہو سکتی ہیں۔اس کے لئے کھڑے ہونے کی بھی زحمت نہیں اُٹھانی پڑتی لیکن آسانیوں سے بھرپور اس زندگی کے جو بھیانک نتائج سامنے آ رہے ہیں وہ بڑے گمبھیر ہیں۔
مسوری یونیورسٹی میں بائیو میڈیکل سائنس کے پروفیسر مارک ہملٹن یہ کہتے ہیں کہ زیادہ دیر تک ایک جگہ بیٹھے رہنے سے جسم کا وہ نظام اپنا کام بند کرنا شروع کر دیتا ہے جو غذا کو جسم کا حصہ بنا کر ہمیں توانائی فراہم کرتا ہے۔
جب ہمارے جسم کے وہ بڑے پٹھے خاص طور پر ٹانگوں کے پٹھے جن کا کام ہی حرکت میں رہنا ہے،زیادہ دیر تک غیر متحرک رہیں تو جسم میں دوران خون کی رفتار گٹھنے لگتی ہے اور حرارے کم تر مقدار میں جلتے یا استعمال ہوتے ہیں۔ہمارے جسم میں ایسے خامرے (Enzymes) بنتے ہیں جن کا کام ایک خاص قسم کی چکنائی ”ٹرائی گلیسرائیڈز“ کو توڑنا ہوتا ہے۔جب ہم بہت دیر تک ایک ہی جگہ جم کر بیٹھ جاتے ہیں تو یہ خامرے اپنا کام بند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اگر ہم دن بھر بیٹھے رہ گئے تو چکنائی کو جلانے والے یہ خامرے پچاس فیصد ضائع ہو جاتے ہیں،نتیجہ جسم میں جمع ہونے والی اضافی چربی اور موٹاپے کی صورت میں نکلتا ہے۔
نقصان صرف اسی حد تک نہیں ہوتا۔ہم جتنا کم حرکت کریں گے،اسی قدر ہمارے خون میں موجود شکر کم استعمال ہو گی۔اس سلسلے میں کی گئی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ مسلسل بیٹھے رہنے سے ہر دو گھنٹے گزارنے کی صورت میں ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے امکانات سات فیصد بڑھتے جائیں گے۔
اس حال میں دل کے متاثر ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ وہ مادے جو خون میں چکنائی کو قابو میں رکھتے ہیں،سرگرم نہیں رہتے۔ایسی حالت میں یاسیت اور افسردگی چھانے کا امکان بھی زیادہ ہو جاتا ہے کیونکہ جسم میں اگر خون کم گردش کر رہا ہو تو خوش گواری کا احساس دلانے والے ہارمونز دماغ کا رُخ کم کرتے ہیں۔
کرسی یا صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھے رہنے کی عادت سے جسم کی ساخت اور ریڑھ کی ہڈی پر بھی بہت منفی اثرات پڑتے ہیں۔

پنسلوانیا کے ایک فٹنس ایکسپرٹ ڈکلس لیز کا یہ کہنا ہے کہ جو لوگ سارا دن بیٹھے رہتے ہیں ان کے کولہے کو موڑنے والے عضلات اور گھٹنوں کے پیچھے کے عصبے اور پٹھے سکڑ کر سخت ہو جاتے ہیں جبکہ وہ پٹھے جو ریڑھ کی ہڈی کو سہارا دے رہے ہوتے ہیں وہ کمزور اور سخت ہو جاتے ہیں۔ان حالات میں یہ کوئی حیران کن خبر نہیں ہے کہ 1990ء کی دہائی کے بعد سے اب تک بالخصوص خواتین میں کمر کے درد کی شکایت تین گنا بڑھ چکی ہے۔

ماہرین یہ کہتے ہیں کہ جم یا ورزش گاہ میں تیس منٹ گزارنے سے آٹھ سے دس گھنٹے بیٹھے رہنے کے تباہ کن اثرات کا ازالہ نہیں ہو گا۔سترہ ہزار افراد پر مشتمل ایک وسیع تر جائزے میں کینیڈا کے ریسرچرز نے ایک اور جامع نتیجہ اخذ کیا کہ لوگ جتنا زیادہ وقت بیٹھ کر گزاریں گے اسی قدر طبعی عمر سے پہلے موت کا خطرہ بڑھتا جائے گا․․․خواہ وہ لوگ کتنے ہی فٹ کیوں نہ ہوں۔

اگر ورزش سے بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا تو پھر آخر کیا کریں․․․․؟
یہ کوئی بہت پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے۔آپ کو روزانہ ورزش کے علاوہ دیگر ہلکی پھلکی سرگرمیوں سے صرف اپنے جسم کو گرم کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔اسے Non-exercise activity thermogenesis کہتے ہیں۔یہ وہ توانائی یا حرارے ہیں جو ہم کسی بھی کام کو انجام دیتے وقت جلاتے ہیں سوائے ورزش کے۔اس قسم کے مختلف کام ہو سکتے ہیں مثلاً کپڑے تہہ کرنا،بستر لگانا،فرش پونچھنا،برتن صاف کرنا،یہاں تک کہ تلوؤں کو تھپتھپانا اور صرف کھڑا ہونا بھی (متناسب) سرگرمیوں میں شامل ہے۔
اس قسم کے کام بھی انجام دینے سے بہت جلد کمر کا سائز کم ہو سکتا ہے۔
Neat کے حوالے سے ڈاکٹر جیمز لیوین نے ایک جائزہ لیا تھا۔انہوں نے بیس ایسے افراد کا انتخاب کیا جو باقاعدگی سے ورزش نہیں کرتے تھے۔ان میں سے آدھے فربہ تھے اور آدھے نہیں تھے۔ان لوگوں کو انہوں نے ایک مخصوص قسم کی انڈرویئر پہنائی جو ان کی ایک ایک حرکت محسوس کرکے انہیں محفوظ بھی کر سکتی تھی۔
اس طرح کی تمام حرکتیں یہاں تک کہ جسمانی کسمساہٹ بھی نوٹ کی گئی۔دس دن کے بعد انہوں نے دیکھا کہ دبلے پتلے شرکاء نے زیادہ وزنی شرکاء کے مقابلے میں روزانہ اوسطاً 150 منٹ زیادہ حرکت کی تھی۔یہ اضافی حرکت 350 کیلوریز جلانے کے لئے کافی تھی جو تقریباً ایک ”چیز برگر“ کھانے سے حاصل ہوتی ہے۔
اس تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ اگر ہم کچھ نہ کریں صرف اپنے ہاتھ پاؤں ہلائیں یا کھڑے ہو جائیں یا گیند کو لڑھکا دیں تو بھی حرارے استعمال ہوں گے اور ایسا کرکے ہم نہ صرف دواؤں سے بلکہ ڈاکٹروں سے بھی دور رہیں گے۔
ماہرین اس مسئلے کو سمجھانے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے جسم کو ایک کمپیوٹر سمجھیں۔جب تک آپ ماؤس کو حرکت دیتے رہتے ہیں اور کی بورڈ پر انگلیاں دباتے رہتے ہیں اس وقت تک آپ کا کمپیوٹر سسٹم کام کرتا رہتا ہے اور جہاں آپ نے اسے چند منٹ تک بے کار چھوڑ دیا،کمپیوٹر مشین ”پاور کنزرویشن موڈ“ میں چلی جائے گی۔ہمارا جسم متحرک رکھنے کے لئے بنایا گیا ہے۔
جب ہم بیٹھے ہوتے ہیں اور بہت دیر تک کوئی حرکت نہیں کرتے تو جسم اپنے کئی کام بند کر دیتا ہے اور کم توانائی استعمال کرتا ہے۔اگر آپ دن بھر خود کو چاق و چوبند رکھیں گے تو آپ کے جسم کا تحول غذا (Metabolism) کا نظام بھرپور استعداد کے ساتھ پھرتی سے کام کرتا رہے گا۔
یہ بات یوں بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ جب آپ اپنی نشست سے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اِدھر اُدھر حرکت کرتے ہیں تو اس عمل کے ذریعے گویا آپ اپنے جسم میں چکنائی کو جلانے والی مشین آن کر دیتے ہیں۔

ایک ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ کرسی پر بیٹھے ہوئے حالت کے مقابلے میں صرف کھڑے ہونے سے تین گنا زیادہ حرارے استعمال میں آ جاتے ہیں۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ Neat قسم کی سرگرمیاں خون کے بہاؤ کو بھی بہتر بناتی ہیں اور دماغ کو سیروٹونین ہارمون کی فراہمی کی مقدار بڑھا دیتی ہیں۔اس طرح یادداشت اور سوچ و فکر تیز ہو جاتی ہے جبکہ یاسیت اور مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔

ماہرین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو خود کو ایک جگہ ساکت و جامد نہ رکھیں۔ہر آدھ گھنٹے بعد تھوڑی دیر کے لئے وہاں سے اُٹھ جائیں۔اگر کام کی نوعیت ایسی ہے کہ آدھ گھنٹے سے زیادہ بیٹھنا ضروری ہے تو وقفہ کا دورانیہ بڑھا دیں۔چند منٹ آس پاس ٹہل کر دوبارہ اپنی نشست سنبھالیں۔اگر آپ کو ای میل پڑھنا یا فون پر بات کرنا ہو تو یہ کام بیٹھ کر کرنے کے بجائے کھڑے ہو کر انجام دیں۔
ساتھیوں کے ہمراہ چہل قدمی کریں تاکہ نئے خیالات ذہن میں جگہ بنا سکیں۔
گھر پر ٹی وی کے سامنے وقت گزارنے کے لئے روزانہ دو گھنٹے یا اس سے کم وقت مقرر کر لیں۔اگر گھر پر ایکسرسائز بائیسکل کی سہولت میسر ہے تو ان پر ورزش کے دوران ٹی وی دیکھنا زیادہ بہتر ہو گا۔
خواتین کے معاملے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ ٹی وی کے سامنے بہت زیادہ وقت صرف کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان میں ہائی بلڈ پریشر،ہائی کولیسٹرول اور ہائی بلڈ شوگر کی شکایتیں زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔ٹی وی کے سامنے ہر اضافی گھنٹے کے ساتھ ان میں میٹابولک سنڈروم کا خطرہ چھبیس فیصد بڑھ جاتا ہے۔

Browse More Healthart