Tap E Diq - Ilaj Mein Kotahi Khatre Ki Ghanti - Article No. 2663

Tap E Diq - Ilaj Mein Kotahi Khatre Ki Ghanti

تپِ دق ․․․ علاج میں کوتاہی،خطرے کی گھنٹی - تحریر نمبر 2663

ٹیوبرکلوسس (ٹی بی) جسے تپ دق یا سل کہا جاتا ہے،ایک متعدی عارضہ ہے،جو ایک فرد سے دوسرے کو باآسانی لگ سکتا ہے

بدھ 15 مارچ 2023

ڈاکٹر عمران تقی
ٹیوبرکلوسس (ٹی بی) جسے تپ دق یا سل کہا جاتا ہے،ایک متعدی عارضہ ہے،جو ایک فرد سے دوسرے کو باآسانی لگ سکتا ہے۔دراصل ٹی بی کا مریض جب کھانستا یا چھینکتا ہے،تو لعاب کے ننھے ننھے قطروں کے ساتھ جراثیم فضا میں شامل ہو جاتے ہیں جو اسی ماحول میں سانس لینے والے دوسرے افراد کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں اور انھیں اس مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں۔
اس بیماری کا کامیاب علاج موجود ہے،اس کے باوجود عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ٹی بی پوری دنیا میں اموات کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے،جو ماہرین کے تشویش کا باعث ہے۔واضح رہے،تپ دق سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا شمار پانچویں نمبر پر کیا جاتا ہے کہ یہاں سالانہ چار سے پانچ لاکھ افراد اس عارضے کا شکار ہو رہے ہیں اور متعدد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارے یہاں ٹی بی کی بلند شرح کے اسباب میں سرِفہرست تشخیص میں تاخیر،غیر معیاری علاج،ادویہ کی کم یابی،علاج سے گریز اور مستند علاج تک رسائی نہ ہونا ہیں۔
تپ دق کا سبب ایک مخصوص جرثوما ”مائیکوبیکٹیریم ٹیوبرکلوسس (Mycobacterium Tuberculosis) ہے۔اگر ٹی بی کے جراثیم جسم تک رسائی حاصل کر لیں،تو ضروری نہیں کہ یہ فوراً ہی فعال ہو جائیں کہ بعض کیسز میں یہ جراثیم جسم کے اندر خاموش یا خوابیدہ حالت میں بھی رہتے ہیں۔
ٹی بی کی اس قسم میں مبتلا افراد خود کو بیمار محسوس کرتے ہیں،نہ ان میں کسی قسم کی علامات ظاہر ہوتی ہیں،لیکن جب یہ جراثیم بیدار یعنی فعال ہو جائیں،تو پھر مذکورہ فرد ٹی بی کا شکار ہو جاتا ہے۔یاد رہے،ٹی بی کے جراثیم تب ہی فعال ہوتے ہیں،جب قوتِ مدافعت کم ہو جائے،بصورتِ دیگر جسم میں موجود ہونے کے باوجود بے ضرر ہی رہتے ہیں۔مخفی انفیکشن سے متاثر مریض اہلِ خانہ یا دیگر افراد میں جراثیم منتقل کرنے کا سبب نہیں بنتے ہیں۔
یوں تو ٹی بی کا جرثوما جسم کے کسی بھی حصے کو متاثر کر سکتا ہے۔مثلاً نظامِ ہاضمہ،اعصابی نظام،دماغ،آنتیں،ہڈیاں،جوڑ،گردے،جلد،آنکھوں کے پردے،کمر اور غدود وغیرہ،لیکن تپ دق کا مرض تین چوتھائی مریضوں کے پھیپھڑے ہی متاثر کرتا ہے۔ٹی بی کی بنیادی علامات میں بخار،رات کو اکثر گھبراہٹ کی وجہ سے اُٹھ جانا،زائد پسینہ آنا،کھانسی کے ساتھ کبھی کبھی خون کا اخراج یا خون کی قے،بہت زیادہ تھکاوٹ،کمزوری محسوس ہونا،بھوک میں کمی،بہت زیادہ سردی محسوس ہونا،تین ہفتوں سے زائد کھانسی یا بلغم کا اخراج،تھکاوٹ کی وجہ سے ہر وقت نیند کی کیفیت طاری رہنا،پھیپھڑوں میں پانی بھر جانا،سینے سے سیٹی کی سی آوازیں آنا،آواز کا بہت زیادہ بیٹھ جانا،گلے میں شدید درد،وزن میں نمایاں کمی،سینے میں درد وغیرہ شامل ہیں۔
مرض کی تشخیص کے لئے بلغم کا ٹیسٹ تجویز کیا جاتا ہے۔
تپ دق سو فیصد قابلِ علاج بیماری ہے،بشرطیکہ بروقت تشخیص ہو اور علاج کا دورانیہ بھی مکمل کر لیا جائے۔ٹی بی کے علاج کے لئے ایک پلان ترتیب دیا جاتا ہے،جس کا مقصد مریض کے لئے علاج کا ایک ایسا منظم انتظام کرنا ہے کہ کسی بھی رکاوٹ کے بغیر علاج کا دورانیہ مکمل ہو سکے۔یہ پلان معالج،ٹی بی کو آر ڈی نیٹر کی مشاورت سے ترتیب دیا جاتا ہے۔
تپ دق کے علاج کا دورانیہ چھ سے نو ماہ پر مشتمل ہے۔تاہم،بعض اعضاء کی ٹی بی میں علاج کی مدت بڑھ بھی جاتی ہے،جب کہ ایم ڈی آر اور ایکس ڈی آر ٹی بی میں بھی یہ دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔واضح رہے،اگر مریض صحیح طریقے سے علاج نہیں کرواتا یا پھر ادھورا چھوڑ دیتا ہے،تو وہ ایم ڈی آر ٹی بی یعنی ملٹی ڈرگ ریزیسٹینس ٹیوبرکلوسس کا مریض بن سکتا ہے۔جس کا علاج مہنگا،طویل دورانیے کا اور انتہائی تکلیف دہ ہے۔
عام طور پر ادویہ استعمال کرنے کے دو اور چھ ہفتے بعد مریض کو تپ دق سینٹر بلوایا جاتا ہے،تاکہ خون کا ٹیسٹ کیا جا سکے۔زیادہ تر مریض باقاعدگی سے خود ہی دوا کھا لیتے ہیں،لیکن بعض کیسز میں طبی کارکن / تربیت یافتہ فرد اپنی نگرانی میں ہر روز دوا کھلاتا ہے۔طبی اصطلاح میں اسے Directly Observed Therapy سے موسوم کیا گیا ہے،جس کا مخفف DOT ہے۔دراصل ڈاٹ کا مقصد علاج کا دورانیہ مکمل کرنے میں مریض کو مدد فراہم کرنا ہے،کیونکہ کامیاب علاج کے لئے ضروری ہے کہ باقاعدگی سے دوا استعمال کی جائے،تاکہ ٹی بی خطرناک صورت اختیار نہ کرے۔
اس کے علاوہ اگر دورانِ علاج مضر اثرات ظاہر ہوں،تو طبی کارکن اس سے متعلق بھی رہنمائی کرتا ہے۔
واضح رہے،ایسے تمام مریض جو گھر پر رہ کر خود مقررہ وقت پر دوا کھا لیتے ہیں،انہیں عام طور پر ایک ہفتے کی دوا دی جاتی ہے۔اگر کوئی مریض مخصوص وقت پر دوا کھانا بھول جائے،تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ الارم لگا لیا جائے یا پھر ایک چارٹ پر دوا کے اوقات لکھ کر گھر کے کسی ایسے حصے کی دیوار پر آویزاں کیے جائیں کہ اس پر نظر پڑتی رہے۔
اس کے باوجود بھی اگر مریض کسی قسم کے شک میں مبتلا ہو (مثلاً علاج ٹھیک نہیں ہو رہا) تو اپنے معالج سے رابطہ کر لیا جائے۔پاکستان میں بھی حکومت کی زیر نگرانی تمام صوبوں،اضلاع،قصبات اور دیہات میں ٹی بی کے تشخیصی اور علاج کے مراکز قائم ہیں جو بالکل مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔

Browse More Healthart