Thalassemia - Article No. 2446

Thalassemia

تھیلیسیمیا - تحریر نمبر 2446

خون کی موروثی بیماری

پیر 23 مئی 2022

ڈاکٹر جمیلہ آصف
مئی کے مہینے میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں خون کی بیماری تھیلیسیمیا کے خلاف آگاہی کا دن منایا جاتا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق خون کا مہلک مرض تھیلیسیمیا دراصل موروثی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے،یہ مرض خون کے خلیوں کی غیر معمولی حرکات کی علامت ہے جس کے باعث خون بننے یا اس کی پیداوار کا عمل رک جاتا ہے۔
نیا خون نہ بننے کی وجہ سے متاثرہ مریضوں کو بار بار خون لگانے کی ضرورت پڑتی ہے تاریخی اعتبار سے تھیلیسیمیا کا تعلق سکندر اعظم سے بیان کیا جاتا ہے جو سینکڑوں سال پہلے جنوبی ایشیاء پر حملہ آور ہوا اور اس حملے کے بعد ہی تھیلیسیمیا کی بیماری برصغیر تک آ پہنچی۔اگر ہم تھیلیسیمیا کے لفظ کا جائزہ لیں تو یہ ایک یونانی لفظ تھیلس سے ماخوذ ہے جس کا مطلب سمندر بتایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

پہلی بار امریکی ماہر امراض اطفال تھامس کولی نے ڈاکٹر پرل لی کے ہمراہ 1927ء میں تھیلیسیمیا کی خصوصیات بیان کیں جو اٹلی میں نظر آئیں۔ابتداء میں تھیلیسیمیا کو ایک ہی خطے کا مرض سمجھا جاتا تھا تاہم اب یہ بیماری دنیا بھر میں پھیل چکی ہے جو جنوبی یورپ،پرتگال،اسپین،یونان اور وسطی یورپ و امریکہ کے علاوہ روس میں بھی پائی جاتی ہے۔اٹلی،مڈل ایسٹ،ایشیا اور چین کے باشندوں میں بھی عام ہے جبکہ افریقی ممالک میں کم پائی جاتی ہے۔

تھیلیسیمیا موروثی بیماری ہونے کی وجہ سے اُن خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے جن خاندانوں میں بیماری پہلے سے پائی جاتی ہے اور آپس میں خاندانی شادیوں کا رواج زیادہ ہوتا ہے۔اس بیماری میں سرخ خلیات میں پایا جانے والا ہیموگلوبن اب نارمل بنتا ہے جس کی بنیادی وجہ ان جینز میں خرابی پیدا ہونا ہے جو انسانی جسم میں ہیموگلوبن بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
ہیموگلوبن سرخ رنگ کا مادہ ہے جو آکسیجن کی سپلائی میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ہیموگلوبن دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے پہلا حصہ ہیم کہلاتا ہے جو آئرن کا مرکب ہے۔دوسرا حصہ پروٹین سے بنا ہوتا ہے جس کو گلوبن کہتے ہیں۔گلوبن دو عدد جینز الفا اور بیٹا سے بنی ہوتی ہے۔
بالغ انسانوں میں پائی جانے والی ہیموگلوبن کو ایڈلٹ ہیموگلوبن کہتے ہیں اور بالغوں میں خون کے اندر تقریباً 98 فیصد ہیموگلوبن ایڈلٹ ہی ہوتی ہے اور ہیموگلوبن میں پروٹین گلوبن کی چار جینز ہوتی ہیں۔
دو الفا اور دو بیٹا گلوبن،تھیلیسیمیا کے مریضوں میں الفا یا بیٹا گلوبن جینز میں خرابی واقع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بننے والی ہیموگلوبن اب نارمل ہوتی ہے۔جنیاتی اعتبار سے تھیلیسیمیا کو الفا اور بیٹا کا نام دیا گیا ہے،یعنی الفا گلوبن کی خرابی الفا تھیلیسیمیا اور بیٹا گلوبن کی خرابی بیٹا تھیلیسیمیا کا سبب بنتی ہے جبکہ مرض کی شدت کے اعتبار سے تھیلیسیمیا کی تین قسمیں ہیں شدید قسم کو تھیلیسیمیا میجر،درمیانی شدت والی کو تھیلیسیمیا انٹر میڈیا اور کم شدت والی کو تھیلیسیمیا مائنر کہتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ ایک قسم کا تھیلیسیمیا کبھی دوسری قسم کے تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔یعنی الفا کبھی بیٹا میں اور نہ ہی بیٹا کبھی الفا میں تبدیل ہو سکتا ہے اور نہ ہی کبھی میجر تبدیل ہو کر مائنر یا مائنر بدل کر میجر بن سکتا ہے۔
بیٹا تھیلیسیمیا میں بیٹا گلوبن بنانے والے جینز میں خرابی واقع ہو جاتی ہے جبکہ بیٹا جینز دو عدد ہوتے ہیں۔
ایک ماں اور دوسرا باپ سے بچے کو منتقل ہوتا ہے لہٰذا اگر صرف ایک جینز خراب ہو تو اس صورت میں بیماری کو مائنر بیٹا تھیلیسیمیا یا ٹریٹ کہتے ہیں لیکن اگر دونوں جینز خراب ہوں تو بیٹا تھیلیسیمیا میجر کہتے ہیں۔ایسے بچے پیدائش کے وقت صحت مند ہوتے ہیں لیکن پیدائش کے دو سال کے اندر اُن میں بیماری کی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں لیکن بعض اوقات یہ علامات شدت سے ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ اوسط درجے کی ہوتی ہیں اس صورت میں بیماری کو بیٹا تھیلیسیمیا انٹر میڈیا کہتے ہیں۔

تھیلیسیمیا کی علامات اور نشانیوں کا تعلق اس کی قسم اور شدت پر ہوتا ہے۔تھیلیسیمیا مائنر کے مریضوں کو کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں ہوتی اور نہ ان کی زندگی پر کوئی خاص اثر پڑتا ہے۔ایسے مریضوں کی تشخیص صرف لیبارٹری کے ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے،ایسے لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں مگر یہ لوگ تھیلیسیمیا اپنے بچوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں میں خون بننے کا عمل رُک جاتا ہے یا بہت کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے مریض کو مہینے میں ایک سے دو بار خون لگانا پڑتا ہے۔
اس طرح جسم میں آئرن کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے۔بہت زیادہ آئرن سے دل،جگر اور غدود پر نہایت بُرا اثر پڑتا ہے اور ان اعضاء میں خرابیاں واقع ہونے لگتی ہیں۔ان بچوں میں انفیکشن ہونے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے،خاص طور پر اگر تلی نکال دی گئی ہو۔تھیلیسیمیا میں ہڈیوں کا گودا پھیل جاتا ہے جس سے ہڈیوں کی شکل و صورت بگڑنے لگتی ہے۔خاص طور پر چہرے اور سر کی ہڈیاں نہ صرف خراب ہو جاتی ہیں بلکہ ان میں کمزوری پیدا ہو کر فریکچر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
انسانی جسم میں تلی انفیکشن کے خلاف لڑنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور خون سے ناکارہ مادے مثلاً مردہ اور ٹوٹے پھوٹے ہوئے سرخ خلیات وغیرہ کو نکال باہر کرتی ہے لیکن تھیلیسیمیا میں خون کے سرخ خلیات کی بہت بڑی مقدار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے تلی کا سائز بہت بڑھ جاتا ہے اس صورتحال میں جو خون مریض کو بار بار لگایا جاتا ہے اس کے سرخ خلیات کو بھی بڑھی ہوئی تلی وقت سے پہلے ہی توڑ دیتی ہے کیونکہ تھیلیسیمیا کے بچوں میں خون کی مسلسل کمی رہتی ہے جس کی وجہ سے ان کی نشوونما ٹھیک طریقے سے نہیں ہو سکتی اور ان کو بالغ ہونے میں بھی بہت وقت لگ سکتا ہے۔

ڈاکٹرز کا کہنا ہے تھیلیسیمیا کے مریضوں کو فولک ایسڈ کا استعمال کرنا چاہئے،اس سے انیمیا کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ایسے وٹامنز یا سپلیمنٹ استعمال نہ کریں جن میں آئرن شامل ہو۔وٹامن ڈی اور کیلشیم کا بھرپور استعمال کریں،اس سے ہڈیوں کو مضبوطی حاصل ہو گی۔ہمیشہ متوازن غذا استعمال کریں جس سے جسم میں توانائی آئے گی۔
ورزش باقاعدگی سے جاری رکھیں تاکہ مریض فٹ رہے۔انفیکشن سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں خاص طور پر اگر تلی نکال دی گئی ہو اس مقصد کے لئے ہاتھوں کو کئی بار صابن اور پانی سے دھوتے رہیں،اس کے علاوہ مختلف انفیکشنز سے بچاؤ کی ویکسین مثلاً فلو،سرسام،نمونیا اور ہیپاٹائٹس وغیرہ ہر سال لگواتے رہیں۔اگر بخار یا انفیکشن ہو جائے تو فوراً اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

Browse More Healthart