Motapa - Article No. 2490

Motapa

موٹاپا - تحریر نمبر 2490

ایک ایسی بیماری جو دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے

جمعہ 15 جولائی 2022

پروفیسر ڈاکٹر رضوان ظفر
موٹاپا ایک ایسی بیماری کا نام ہے جس میں انسان کا جسم فربہ ہو جاتا ہے اور وزن ایک خاص تناسب سے بڑھ جاتا ہے۔چربی،جلد اور پیٹ کے اعضا ساتھ جمع ہو جاتے ہیں۔موٹاپے کی جانچ پڑتال کے لئے بی ایم آئی (باڈی ماس انڈیکس) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔یہ ایک ایسی پیمائش کا نام ہے جو انسانی قد اور وزن کے تناسب سے اخذ کی جاتی ہے۔
ایک نارمل یا مناسب وزن کے انسان کا 24.9-18.5 ہوتا ہے۔اگر بی ایم آئی 25 سے 29.9 کے درمیان تک ہو تو انسان کا وزن بڑھنے کی عکاسی ہوتی ہے لیکن یہ موٹاپا نہیں کہلاتا ہے۔
اگر بی ایم آئی 30 سے 34.9 تک ہو تو یہ کلاس ون موٹاپا کہلاتا ہے۔اگر 35 سے 39.9 تک ہو تو یہ کلاس 2 موٹاپا کہلاتا ہے۔اگر بی ایم آئی 40 ہو تو یہ کلاس 3 یا شدید موٹاپا کہلاتا ہے۔

(جاری ہے)

بی ایم آئی کا فارمولا یہ ہے:وزن کلو گرام/قد کی لمبائی (سینٹی میٹر سکوائر)۔

جسم کے کس حصے کی چربی انتہائی خطرناک ہوتی ہے؟یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے۔انسان کی کمر اور پیٹ کے اعضا سے متعلقہ چربی انسان کی ہپس اور تھائی میں پائی جانے والی چربی سے زیادہ خطرناک اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔کئی لوگ پوچھتے ہیں کہ کمر کے سائز کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟درحقیقت اگر مردوں میں کمر کا سائز 40 انچ اور عورتوں میں 35 انچ سے بڑھ جائے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے کیونکہ اس سے پیچیدگیاں بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

موٹاپا ایک ایسی بیماری ہے جو دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے۔اس وقت دنیا بھر میں 30 فیصد لوگ موٹاپے کا شکار ہیں۔امریکہ میں 40 فیصد لوگ موٹاپے کا شکار ہیں۔پاکستان اس وقت اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔پاکستان میں عورتوں میں موٹاپا مردوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔بعض لوگوں میں موٹاپا موروثی ہوتا ہے تاہم لائف اسٹائل اور خوراک بھی اہم ہے۔
خوراک میں ضرورت سے زیادہ کھانا،بار بار کھانا،مرغن غذاؤں کا کثرت سے استعمال،جوس،میٹھی اشیاء کا استعمال اور فاسٹ فوڈ کا بکثرت استعمال موٹاپے کی وجوہات ہیں۔اس کے علاوہ فیملی فنکشنز میں بے ربط کھانا اور سویٹ ڈشز ہمارے طرز زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہیں اور یہ سب موٹاپے کا سبب ہیں۔
کوویڈ کی وبا کے دوران زیادہ تر لوگ گھروں میں رہے اور ہوم ڈیلیوری،فاسٹ فوڈ اور رات کو دیر تک جاگنا ان کا معمول بن گیا۔
اس وجہ سے زیادہ تر لوگوں کا وزن ناصرف معمول سے بڑھا بلکہ وہ موٹاپے کا شکار ہوئے کیونکہ گھر سے باہر نکلنے اور واک کی روٹین کو سب نے ترک کر دیا تھا۔خوراک کی بد نظمی،سیر نہ کرنا،ہلکی پھلکی ورزش نہ کرنا یہ سب موٹاپے کا سبب بنتا ہے۔دوسری جانب مختلف ادویات مثلاً انسولین،شوگر کنٹرول کرنے کی گولیاں،ڈپریشن کے علاج کی ادویات اور سٹیرائیڈز وزن بڑھانے کی عام ادویات ہیں۔
ان کے علاوہ حمل سے روکنے کی ادویات بھی وزن بڑھا سکتی ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ موٹاپا نہ صرف بذاب خود ایک بیماری ہے بلکہ دوسری بہت سی بیماریوں کا پیش خیمہ بھی ہے۔مثلاً جسم میں کولیسٹرول کی زیادتی،یورک ایسڈ کا بڑھنا،سانس کی بیماریاں،سینے میں جلن،جوڑوں کی تکالیف خصوصاً کمر،گھٹنے کی درد اور ذیابیطس ہونے کا خطرہ،فیٹی لیور اور بلڈ پریشر ان سب کی وجہ موٹاپا ہے۔
موٹاپے پر قابو پانے کی سب سے پہلی کوشش یہ ہے کہ موٹاپے کو نہ ہی ہونے دیں کیونکہ موٹاپا ہونے کے بعد اس کو کنٹرول کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔موٹاپے سے بچنے کے لئے خوراک کا عمل دخل بہت اہم ہے۔مرغن غذاؤں،مشروبات،فاسٹ فوڈ،گوشت کم لینا اور گائے کے گوشت سے پرہیز کرنا چاہئے۔تاہم مرغی اور مچھلی کا گوشت کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اس کو ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خوراک میں پھل اور سبزیاں زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔اور اس کو اپنا معمول بنائیں روزانہ سیر کو معمول بنائیں اور ہفتے میں کم از کم 150 منٹ کی سیر ضرور کریں۔بچوں کو شروع سے ہی سیر کی عادت ڈالیں تاکہ وہ مستقبل میں موٹاپے سے بچ سکیں۔اگر پرہیز سے موٹاپا کنٹرول نہ ہو تو بیریاٹرک سرجری ایک اچھا طریقہ علاج ہے اور ان لوگوں کو تجویز کیا جاتا ہے جن کا وزن کنٹرول نہیں ہوتا یا جن کا بی ایم آئی 40 سے زیادہ ہو جاتا ہے اور کچھ پیچیدگیاں بھی ہوں۔
اس کے علاج کے لئے ماہر امراض معدہ و آسنت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب سائنسدانوں کو اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ذہنی دباؤ موٹاپے کی ایک اہم وجہ ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔زیادہ ذہنی دباؤ کی حالت میں ہماری نیند خراب ہوتی ہے اور خون میں شوگر کی مقدار بھی متاثر ہوتی ہے۔اس وجہ سے ہمیں زیادہ بھوک لگتی ہے اور کچھ کھا کر ہی آرام ملتا ہے۔
جسم میں چربی بڑھنے لگتی ہے اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔جب ہم ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں تو ہمارا جسم سمجھتا ہے کہ اس پر باہر سے کوئی حملہ ہوا ہے۔اس لئے جسم عضلات کو طاقت دینے کے لئے خون میں زیادہ گلوکوز خارج کرنے لگتا ہے۔لیکن جب اس طاقت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تو لبلبہ انسولین چھوڑتا ہے جس کی مدد سے خون میں گلوکوز کی سطح معیار پر واپس آ جاتی ہے۔
انسولین کا لیول بڑھنے اور خون میں اس طرح شوگر کا لیول گرنے کی وجہ سے ہمیں دوبارہ بھوک لگ جاتی ہے۔اسی لئے جب ہم ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں تو ہمیں بار بار زیادہ میٹھا کھانے کا دل کرتا ہے۔اسی طرح جب ہماری نیند پوری نہیں ہوتی ہے تب بھی ہمیں بار بار بھوک لگتی ہے۔اس لئے موٹاپے سے بچنے کیلئے اپنی نیند کا خاص خیال رکھیں۔

Browse More Weight Loss