ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یا فتہ علاقہ جات کے مسائل کا اجلاس

وزارت کامرس اسکے ماتحت اداروں کی مجموعی کارکردگی کے علاوہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے والے علاقے اور ملک کے دیگر پسماندہ علاقوں کیلئے مختص ، غیر استعمال شدہ اور استعمال شدہ فنڈ ز،چیمبر زکی رجسٹریشن کے طریقہ کار اور پسماندہ علاقوں میںچیمبرز کی رجسٹریشن کی نا منظوری ، وزارت اور اسکے ماتحت اداروں میں ملازمین کی تعداد اور اُن کی تفصیلات کے علاوہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران چلغوزے کی پیداوار اور ایکسپورٹ اور خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں اسکی بہتری کیلئے اُٹھائے گئے اقدامات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ

منگل 23 جولائی 2019 23:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 جولائی2019ء) ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یا فتہ علاقہ جات کے مسائل کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں وزارت کامرس اور اسکے ماتحت اداروں کی مجموعی کارکردگی کے علاوہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے والے علاقے اور ملک کے دیگر پسماندہ علاقوں کیلئے مختص ، غیر استعمال شدہ اور استعمال شدہ فنڈ ز،چیمبر زکی رجسٹریشن کے طریقہ کار اور پسماندہ علاقوں میںچیمبرز کی رجسٹریشن کی نا منظوری ، وزارت اور اسکے ماتحت اداروں میں ملازمین کی تعداد اور اُن کی تفصیلات کے علاوہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران چلغوزے کی پیداوار اور ایکسپورٹ اور خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں اسکی بہتری کیلئے اُٹھائے گئے اقدامات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

چیف ڈویلپمنٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت کامرس پسماندہ علاقوں میں پی ایس ڈی پی کے تین منصوبوں میں سے دو پر کام کر رہی ہے ۔ ایکسپو سینٹر پشاور 2.5ارب روپے کا منصوبہ ہے ۔ CDWP نے 2015میں اسکی منظوری دی تھی۔ خیبر پختونخواہ میں اسکی اشدضرورت تھی ۔ اس منصوبے پر 45فیصد کام ہو چکا ہے ۔ ایکسپو سینٹرکوئٹہ کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کا پی سی ون بن چکا ہے ۔

فیزیبلٹی سٹڈی ابھی نہیں ہو سکی ۔ موجودہ مالی سال میں اس منصوبے کیلئے سو ملین روپے مختص کئے گئے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ سی پیک منصوبے کی وجہ سے کوئٹہ ایکسپو سینٹرانتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ کمیٹی ہدایت کرتی ہے کہ تین ماہ کے اندر فیزیبلٹی سٹڈی مکمل کر کے کام شروع کیا جائے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ (ای ڈی ایف )نے سابق فاٹا کے علاقوںکیلئے ایک ٹریننگ کا پروگرام ہے جس میں ماربل اور مائینگ کے متعلق بارہ تربیتی پروگرامز ہیں ایک مکمل ہو چکا ہے منصوبے پر ٹرابل چیمبرز کامرس کا عملہ تربیت فراہم کر رہا ہے ۔

یہ دس ملین کا منصوبہ ہے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ چترال اور مالا کنڈ میں بھی ماربل کا بہت کام ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بونیر ، چاغی ، قلعہ سیف اللہ، خضدار، لورالائی ، وڈھ اور دیگر ماربل اور مائینگ کے علاقوں میں بھی تربیتی پروگرام کرائے جائیں۔ سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ چیمبر اپنے ضلع تک محدود رہتے ہیں ۔یہ ادارہ خود تربیتی پروگرام منعقد کرائے اور فاٹا کہ علاقوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔

فنکشنل کمیٹی کو گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ای ڈی ایف کی طرف سے مختلف منصوبوں پر کئے گئے کاموں کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان کاکڑنے کہا کہ صوبہ بلوچستان سے پیدا ہونے والے پھل ذائقے اور معیار میں انتہائی اعلیٰ ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں پسند کئیء جاتے ہیں مگر سہولیات کی کمی کی وجہ سے مقامی زمینداروں کو اُتنا فائدہ نہیں ملتا جتنا مڈل مین لے جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں پیدا ہونے والے پھلوں کی دنیا بھر میںنمائش منعقد کرائی جائے ۔ صوبہ بلوچستان میں پیکنگ اورسٹور رومز کے سسٹم لگائے جائیں اور میڈیا پراپیگنڈا کے ذریعے موثر تشہیرکی جائے۔لورالائی ، قلات اور کوئٹہ میں پروسیسنگ و پیکنگ سنٹر قائم کیے جائے ان علاقوں میں بہتری آنے سے نہ صرف ایکسپورٹ میں بہتری آئے گی بلکہ کروڑوں روپے کا ٹیکس بھی ملے گا۔

سینیٹر سرفراز احمد بگٹی نے کہا کہ صوبہ بلوچستان سے چیری کا ڈبہ سو روپے میں خرید کر دبئی میں دو ہزار کا فروخت کیا جاتا ہے۔ ہمارے علاقوں میں فزیبلٹی سٹڈی مکمل نہیں ہوتی ۔اس کا ایک ٹائم فریم مقرر کیا جائے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کا ایک بورڈ ہے جس میں پرائیویٹ سیکٹر سے تجاویز کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔ فنکشنل کمیٹی کو چیمبر کی رجسٹریشن کے طریقہ کار اور فیس کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کامرس ادارے میں گروپ بندی اور سیاست کی جاتی ہے پیسوں کا چکر ہے ۔ چیمبرز کو تماشہ بنا دیا گیا ہے جن علاقوں میں چیمبرز کی اشدضرورت ہے اُن علاقوں کی درخواستیں کئی کئی سالوں فائلوں میں بند پڑی رہتی ہیں اس طریقہ کارکو آسان سے آسان بنایا جائے ۔ مسلم باغ ، خضدار وغیرہ کے علاقوں میں دنیا کے بہترین کرومائٹ کے خزانے موجود ہیں ان علاقوں مسلم باغ ، موسیٰ خیل، گوادر اور دیگر متعلقہ علاقوں کیلئے ایک ماہ کے اندر چیمبر ز کے نوٹیفکیشن جاری کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ان علاقوں کا موازنہ لاہور و کراچی سے نہ کیا جائے ۔ صوبہ بلوچستان اور سابق فاٹا کے علاقوں میں 52اقسام کے انتہائی قیمتی معدنیات موجود ہیں اور شیرانی کے علاقے کا چلغوزہ کا معیارعالمی سطح پر انتہائی اچھا ہے مگر مناسب مشینیں اور توڑنے کے فرسودہ سسٹم ہونے کی وجہ سے کافی مقدار میں ضائع بھی ہو جا تا ہے ۔ ان علاقوں میں سہولیات فراہم کر کے نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ مالی سال2017-18 میں 30 ارب کا چلغوزہ ایکسپورٹ کیا گیا جو 2013-14 میں اس سے ڈبل ایکسپورٹ کیا گیا تھا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مقامی لوگوں سے 18سو روپے فی کلو خرید کر 7 ہزار روپے فی کلو فروخت کیا جاتا ہے ۔ ضلع شیرانی میں چلغوزے پروسیسنگ کیلئے صنعت لگائی جائے اور چلغوزے کے جنگلات کو تحفظ دیا جائے ۔ جنگل میں الیکٹرک آری پر پابندی لگائی جائے۔

فنکشنل کمیٹی نے چلغوزے کی ایکسپورٹ میں کمی کی وجوہات کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کر لیں۔ فنکشنل کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت کامرس اور اسکے ماتحت اداروں میں 7.5ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں۔ اور 4.5ہزار ملازمین اسٹیٹ لائف کے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ادارے کے ملازمین کی صوبہ وائز تفصیلات اور گریڈ 16تک کے ملازمین کے ڈومیسائل فراہم کئے جائیں تا کہ تصدیق کرائی جا سکیں کہ وہ متعلقہ علاقوں کے رہائشی ہیں۔

رکن کمیٹی سرفراز احمد بگٹی نے انکشاف کیا کہ انہوں نے 2ہزار جعلی ڈومیسائل کینسل کیے ۔ کمیٹی نے ادارے کی ملازمین کی مکمل تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کر لی۔ چیئرمین و ارکین کمیٹی نے کہا کہ بلوچستان کے جالی ڈومیسائل پر دوسرے صوبوں کے لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے ۔ اسکی تحقیقات جلد سے جلد کرا کے کمیٹی کو روپورٹ فراہم کی جائے۔کمیٹی کے اجلاس میں فنکشنل کمیٹی کی طرف سے ملک کے مختلف پسماندہ اضلاع میں کئے گئے دورو ں کی رپورٹس بھی پیش کی گئی ۔

ارکین کمیٹی اُن کا جائزہ لے کر ایوان بالاء کے اجلاس میں پیش کر نے کی منظور ی دیں گے ۔ فنگشنل کمیٹی نے راجن پور ، مظفر گڑھ ، لیہ، لودھراں،چترال، کیلاش ،ٹانک، شکر گڑھ، کرک ، لکی مروت ، بدین اور تھر پارکر کے دورے کر کے ان علاقوں کے مسائل اور انکے حل کے متعلق تجاویز پر مبنی رپورٹس تیار کی ہیں۔ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹر زراحیلہ مگسی، مولوی فیض محمد ، گیان چند، سرفراز احمد بگٹی ، فدامحمد ، حاجی مومن خان آفریدی ، نگہت مرزا اور سردار محمد شفیق ترین کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری ، وزارت کامرس ، چیف ڈویلپمنٹ وزارت کامرس اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔۔۔۔۔اعجاز خان

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں