سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا اجلاس، گزشتہ دو اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

منگل 22 ستمبر 2020 00:09

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 ستمبر2020ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر تاج محمد آفریدی کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قائمہ کمیٹی کے 6 فروری اور 2 مارچ کو منعقد ہونے والے اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد، فاٹا کے ایڈہاک اور ڈیلی ویجز ملازمین بشمول سمال ڈیم، پاور سیکٹر، روڈ انفراسٹکچر فاٹا ڈیویلمپنٹ اتھارٹی اور ڈیٹا انٹری اپریٹرز کو ریگولر کرنے،سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کے سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے جنوبی وزیرستان کے آئی دی پیز کو معاوضہ دینے،قائمہ کمیٹی کے 25اگست 2020ء کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد، عباد خیل اور قیمات خیل کے علاقوں کو تحصیل کا درجہ دینے، فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 2019-20ء اور 2020-21ء کیلئے مختص فنڈز اور اٴْس میں پارلیمنٹرین بشمول اراکین اسمبلی و سینیٹ اور صوبائی اراکین اسمبلی کے لئے مختص فنڈ کے علاوہ قبائلی اضلاع میں سولر ٹیوب ویل اور گریوٹی بیس ڈی ڈبلیو ایسزکی تعمیر پر استعمال شدہ فنڈز کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قائمہ کمیٹی کے 6 فروری اور 2 مارچ کو منعقد ہونے والے اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سابق فاٹا کے اضلاع میں گیس فراہمی کے منصوبے کے حوالہ سے صوبائی حکومت کے درمیان دو میٹنگز ہوئی ہیں۔ سیکرٹری انرجی، پلاننگ اور خزانہ سے تفصیلی مشاورت کی ہے اور اس کیلئے روڈ میپ بھی بنائے گئے ہیں۔

جنوبی وزیرستان کا سروے کر رہے ہیں جو پہلے پیکیج میں نہیں تھا۔ اپر اورکزئی کا پلان بھی بنا رہے ہیں اور 23 ستمبر سے اس کا سروے بھی کیا جائے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مہمند اورکزئی اور خیبر ایجنسیوں کا نیا سروے ہو کر فزیبلٹی شیئر کر دی گئی ہے اور ایک پیکیج بنایا گیا ہے جیسے جیسے فنڈ ملیں گے ویسے کام ہوگا، کل 10 ارب کا منصوبہ ہے، 3.2 ارب سوئی نادرن فراہم کرے گاجبکہ صوبائی حکومت کا حصہ 6.8 ارب روپے ہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ خیبر ایجنسی کیلئی2.6 ارب، مہمند3.5 ارب اور اورکزئی ایجنسی کیلئے 2.9 ارب کی لاگت آئے گی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ جس طرح فنڈز فراہم کیے جائیں گے اس کے مطابق کام کیاجائے گا۔ سابق فاٹا کیلئے بلاک آلوکیشن کو بھی اس کا حصہ بنایا ہے۔سینیٹر ہدایت الله کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ باجوڑ کا سروے ہو چکا ہے اور اس کی لاگت2.5 ارب روپے ہے۔

جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹرتاج محمد آفریدی نے کہا کہ سابق فاٹا کے وہ اضلاع جن کا سروے نہیں ہوا گیس کی فراہمی کے حوالے سے سروے مکمل کیا جائے اور سابق فاٹا کے عوام کے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے ان پر عمل کر کے لوگوں کو ریلیف دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی پی کیلئے 10 ارب روپے مختص تھے، 6.5 ارب روپے دیے گئے مگر اس کے ثمرات بھی نظر نہیں آئے، اگر واپڈا کو فنڈز مل سکتے ہیں تو محکمہ گیس کو بھی فنڈز دے کر عوام کو ریلیف دیا جائے جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت فنڈز کی فراہمی میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے رواں برس بھی کوئی فنڈز جاری نہیں ہوئے۔

گزشتہ برس آدھے سے کم فنڈز ملے تھے جس پر قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس سیکرٹری خزانہ کو طلب کر لیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کے سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے جنوبی وزیرستان کے آئی دی پیز کو معاوضہ دینے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کرونا وبا کی وجہ سے سروے میں تاخیر ہوئی۔

مہمند او رباجوڑ میں سروے ہو چکا ہے جن میں کیسز بہت کم ہیں۔ سینیٹر شمیم آفریدی نے کہا کہ کوہاٹ میں بھی آئی ڈی پیز کتنی تعدا میں رہتے ہیں آئندہ اجلاس میں کمیٹی کو آگاہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پورے پورے گاؤں تباہ ہوئے ہیں لوگ اپنے رشتہ داروں کے ہاں قیام پذیر ہیں ان کی بھی مدد ہونی چاہیے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ضلع خیبر میں 1114 آئی ڈی پیز رجسٹرڈ ہیں۔

سینیٹرعثمان خان کاکڑ نے کہا کہ آئی ڈی پیز کو ٹی ڈی پی کا نام دے دیا گیا ہے اہم سنجیدہ مسئلہ ہے۔70 ہزار لوگ شہید ہوئے، 94 ہزا ر گھر تباہ ہوئے اور 15 لاکھ لوگ آئی ڈی پیز بن گئے جن کا پورا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے مرکزی حکومت سے 300 ارب کے فنڈ جاری ہوئے، لوگوں کی امداد کی جائے۔انہوں نے کہا کہ تیرہ، مہران شاہ اور دیگر علاقوں کا سروے ہونا چاہیے۔

جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ متعلقہ اضلاع کے ڈی سی نے سروے کرانا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں سابق فاٹا کے اضلاع کے ڈی سیز کو طلب کر لیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ فاٹا کے لوگوں کو انصاف دینا ہمارا فرض ہے آئندہ اجلاس میں تمام فاٹا کے اضلاع کے ڈی سیز سروے رپورٹ کے ساتھ کمیٹی کو بریف کریں اور چیف سیکرٹری اس پر عملدرآمد کرائیں۔

قائمہ کمیٹی نے اگلے اجلاس میں وزارت خارجہ امور اور ٹی ڈی پی بحالی سینٹر کے حکام کو طلب کر لیا۔ سینیٹر ہلال الرحمان نے کہا کہ مہمند ایجنسی میں جن لوگوں کو امداد دی گئی ہے اور جن دینی ہے ان کی فہرست فراہم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مہمند ایجنسی میں کرپشن کی وجہ سے نیب نے ریکارڈ اٹھا لیا تھا۔ چھ سال ہو گئے اس وجہ سے لوگوں کو ابھی تک امداد نہیں مل سکی بہتر یہی ہے کہ وہاں نیا سروے کر ا کے امداد فراہم کی جائے۔

جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ مہمند ایجنسی میں 95 فیصد امداد ہو چکی ہے بہت کم کیسز ہیں نیا سروے ممکن نہیں ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں فاٹا کے ایڈہاک اور ڈیلی ویجز ملازمین بشمول سمال ڈیم، پاور سیکٹر، روڈ انفراسٹرکچر فاٹا ڈویلمپنٹ اتھارٹی اور ڈیٹا انٹری آپریٹرزکو مستقل کرنے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ یونیسف کے ملازمین تھے۔

پرائیویٹ ادارے کے ملازمین کو سرکاری ملازمت میں ضم کرنا ممکن نہیں ہے اس کی کوئی لیگل پروویڑن بھی موجود نہیں ہے جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ آغاز حقوق بلوچستان کے تحت کچھ انجینئرز کو مستقل کیا گیا ہے۔ اسی طرح محکمہ آبپاشی کے لوگ بھی ریگولر ہوئے تھے کوئی ایسا طریقہ کار نکلا جائے جس کے تحت فاٹا کی عوام کو ریلیف مل سکے اور انہیں ایڈ جسٹ کیا جا سکے۔

کمیٹی کے اجلاس میں عباد خیل اور قیمات خیل کے علاقوں کو تحصیل کا درجہ دینے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2018ء کی مردم شماری کے مطابق عباد خیل کی آبادی 34 ہزار کے قریب ہے جس میں دو یونین کونسل اور چار ویلج کونسل ہیں۔تحصیل کا درجہ دینے کیلئے کم سے کم تین ارب کا بجٹ درکا ہوگا اور اس کا مروجہ طریقہ کار ہے۔ تحصیل کا درجہ دینے کی منظوری بورڈ آف ریونیو دیتا ہے۔

قائمہ کمیٹی صوبائی حکومت کو سفارش کر سکتی ہے کہ اس پر غور کیا جائے۔ جس پر سینیٹر شمیم آفریدی نے کہا کہ ہمیں مردم شماری پر پہلے بھی اعتماد نہیں تھا۔ ان علاقوں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زائدہے۔ کمیٹی کے اجلاس میں فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 2019-20ء اور 2020-21ء کیلئے مختص فنڈز اور اٴْس میں پارلیمنٹرین بشمول اراکین اسمبلی و سینیٹ اور صوبائی اراکین اسمبلی کے لئے مختص شیئر کے معا ملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ اے آئی پی کا تین سالہ منصوبہ جات کیلئے 152 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں باجوڑ کیلئے 16، مہمند کیلئی11،خیبر کیلئی23، کرم 19، اورکزئی9 اور جنوبی وزیرستان کیلئی11 اور شمالی وزیرستان کیلئی24 ارب روپے کے منصوبے ہیں۔261 اسکیموں میں سے 131 کی منظوری دی گئی ہے۔ سینیٹر ہدایت الله نے کہا کہ پہلے فنڈ ضلع کی آبادی اور علاقے کے تناظر میں مختص کئے جاتے تھے مگر اس دفعہ ایسا نہیں ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ کورونا کی وجہ سے فنڈز کم ملے ہیں۔ آے ڈی پی کیلئے 24 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جس میں 14 ارب روپے ملے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اے ڈی پی کی 232 ارب کی سکیمیں ہیں۔ اے آئی پی کی تمام سکیمیں نئی ہیں۔اراکین کمیٹی نے کہا کہ چونکہ ورکنگ پیر بروقت نہیں ملے تھے لہذا ایجنڈے کا مزید جائزہ آئندہ اجلاس میں لیا جائے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پارلیمنٹرین کی کوئی سکیم نہیں ہے، ادارے سکیمیں بناتے ہیں۔

جس پر چیئرمین کمیٹی تاج محمد آفریدی اورسینیٹر ہلال الرحمن نے کہا کہ کمیٹی کو حقائق پر مبنی معلومات فراہم کی جائیں۔ ثبوت سے کہتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اے سی ایس کے ساتھ مل کر معاملے کوکلیئر کیا جائے۔اراکین پارلیمنٹ کیلئے شیئر مختص کیے گئے ہیں۔کمیٹی کو ضلع وائز شیئر کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔سینیٹر ہلال الرحمن نے کہا کہ اے ڈی پی اور اے آئی پی کی گائیڈ لائنز کمیٹی کو فراہم کی جائیں اور بتایا جائے کہ کیا پالیسی بنائی گئی ہے۔

سیکرٹری پلاننگ کمیشن اور سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن آئندہ اجلاس میں کمیٹی کو فنڈز کی تقسیم پالیسی بارے آگاہ کریں۔ قائمہ کمیٹی کو ضلع مہمند میں سولر ٹیوب ویل اور قبائلی اضلاع میں ڈی ڈبلیو ایس ایس کو سولر پر منتقل کرنے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ سولر ٹیوب ویل اور گرائیوٹی بیس ڈی ڈبلیو ایس ایس کا 201 ملین کا منصوبہ جو مئی2019 میں منظور ہو ا جس میں 41 سکیمیں ہیں۔

رواں برس15 ملین مختص اور 7 ملین جاری ہوئے۔41 سکیمیں میں سے 17 پر کام ہو رہا ہے،8 سکیمیں نا قابل عمل ہیں اور 16 سکیموں پر جھگڑے ہیں، جھگڑے جگہ کی نشاندہی کے حوالے سے ہیں،2018 سے پہلے پولیٹکل ایجنٹ نے نشاندہی کی تھی۔جس پر سینیٹر ہلال الرحمن نے کہا کہ اداروں نے از خود ان کو متنازعہ بنایا ہے جب صوبائی کمیٹی سے منصوبے منظور ہو چکے تو متنازعہ کیسے ہو سکتے ہیں۔

قبائلی اضلاع سولر ٹیو ویل اور گریوٹی بیس ڈی ڈبلیو ایس ایس قائم کرنے کے حوالے سے بتایا گیا کہ 421 ملین کے منصوبے ہیں جن کی منظوری نومبر2019 کو دی گئی تھی۔ گزشتہ برس 19 ملین جاری کیے گئے تھے۔ رواں برس 60 ملین مختص اور 11 ملین جاری ہوئے۔ کل 40 سکیمیں ہیں۔23 پر کام ہو رہا ہے اور 17 جھگڑے ہیں۔قائمہ کمیٹی نے جھگڑوں والی سکیمیں کی تفصیلا ت کے ساتھ سیکرٹری پی ایچ ای کو بھی طلب کر لیا۔

چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ نیڈ بیس سکیمیوں پر پارلیمنٹرین سے مشاورت ہونی چاہیے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سابق فاٹا کی عوام کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرنا چاہیے جب فاٹا کو ضم کیا جارہا تھا تو جو وعدے کیے گئے ان وعدوں کو پورا کرنا حکومت کا فرض ہے، فاٹا کی عوام نے دہشت گردی کے خلاف بے شمار جانی و مالی قربانیاں دی ہیں، ریلیف فراہم کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز حاجی مومن خان آفریدی، شمیم آفریدی، ہدایت اللہ، انور لال دین،سردار محمد یعقوب خان ناصر، ہلال الرحمن، رانا محمود الحسن اور محمد عثمان خان کاکڑ کے علاوہ سیکرٹری سیفران، سپیشل سیکرٹری لوکل گورنمنٹ خیبر پختونخوا، ڈی جی پلاننگ ڈویژن اور دیگر اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں