اکثر یتی جماعت کا مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے پر ملک تقسیم ہوا،جسٹس حاذق الخیری

1947اور 1971ء میں دوبار قربانی دینے والے محصورین کو فراموش کردیا گیا،صدرکراچی پریس کلب احمد خان ملک سابق وزیر اعظم نواز شریف نے محصورین کو لانے کا وعدہ پورا نہیں کیا، بریگیڈیئر (ر) صلاح الدین، شبیر احمد انصاری اور دیگرکاتحریکِ محصورین مشرقی پاکستان کے زیرِ اہتمام سیمینار سے خطاب

پیر 17 دسمبر 2018 15:40

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 دسمبر2018ء) سابق چیف جسٹس شریعت کورٹ جسٹس حاذق الخیری نے کہا ہے کہ 1970میں اکثر یتی جماعت کا مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے پر ملک تقسیم ہوا جس کے نتیجے میں تین لاکھ سے زائد محصورین 48سال سے کیمپوں میں غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان خیالات کا ظہار انھوں نے تحریکِ محصورین مشرقی پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار بعنوان ’’سقوط ڈھاکہ: مقام عبرت یا ندامت ‘‘سے صدارتی خطا ب کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے کہا کہ تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں ہندوستان کے تمام مسلمان پیش پیش تھے خاص طور پر بنگال کے مسلمانوں نے تحریک کا بھرپور ساتھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ زبان کو مسئلہ بنا کر ہمیں آپس میں لڑوایا گیا حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ ایک صوبے کی زبان دوسرے صوبوں میں نہیں سمجھی جاتی ، اردو چونکہ ہر صوبے میں سمجھی جاتی ہے اس لئے انھوں نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا۔

(جاری ہے)

انھوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے اور انہیں جو مسائل درپیش ہیں ان کے حل کیلئے وہ کوششیں جاری رکھیں گے۔ سیمینار کے مہمانِ خصوصی کراچی پریس کلب کے صدر احمد خان ملک نے کہا کہ 1947اور 1971میں دوبار قربانی دینے والے محصورین کو فراموش کردیا گیا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی نظر میں سقوطِ غرناطہ کے بعد سقوطِ ڈھاکہ سب سے بڑا سانحہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ 1971میں مکنی باہنی کے بھیس میں ہندو لڑ رہے تھے جنھیں انڈیا کی بھرپور مدد حاصل تھی۔ انھوں نے کہا کہ یورپ میں ہر سال لاکھوں تارکینِ وطن کو امیگزیشن دی جاتی ہے محصوررین کی تعداد تو صرف تین لاکھ ہے ان کو شہریت کیوں نہیں دی جاتی اور ان کے پاکستان میں مقیم منقسم خاندانوں کو قومی شناختی کارڈ کیوں نہیں دیا جاتا۔ سابق رکن قومی اسمبلی شبیر احمد انصاری نے اپنی تقریر میں کہا کہ بنگلہ دیش میں محصورین آج بھی اپنے کیمپو ں میں پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 1971سے قبل محصورین وہاں کے باسی تھے انہیں روزگار حاصل تھا ان کے بچے اسکول جاتے تھے لیکن جب وہ ہماری پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے تو ان پر تاریخ کا بدترین ظلم ہوا اور وہ 48سال سے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں انھوں نے مزید کہا کہ اگر انہیں چولستان میں بھی بسادیا جائے تو وہ اسے گلزار بنادیں گے۔ تحریکِ محصورین مشرقی پاکستان کے چیئرمین بریگیڈیئر (ر) صلاح الدین نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ محصورین کو واپس لائیں گے لیکن اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔

انھوں نے کہا کہ محصورین کی تمام تنظیمیں مل کر جدوجہد کریں ایک پلیٹ فار م بنائیں اور مشترکہ کوششیں کریں تب محصورین کا مسئلہ حل ہوسکے گا۔ انھوں نے کہا کہ محصورین کے منقسم خاندانوں کے کارڈ کے اجراء اور تجدید میں رکاوٹوں کے بارے میں انھوں نے ڈی جی نادرا اور دیگر حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کیلئے کوشش کررہے ہیں تاکہ ان کی مشکلات کم ہوسکیں۔

سماجی رہنما فیروز خان نے کہا کہ ہمارے آباو اجداد نے پہلے پاکستان بنانے کیلئے قربانیاں دیں بعد ازاں 1971میں پاکستان بچانے کیلئے قربانیاں دیں لیکن اس کا کوئی صلہ نہیں ملا بلکہ انہیں 48سال سے کیمپوں میں محصور رکھا گیا ہے۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ محصورین کو فوری طور پر پاکستان لایا جائے۔ اس موقع پر تحریک ِ محصورین مشرقی پاکستان کے مشاورتی کمیٹی کے چیئرمین حسن امام صدیقی نے قرار دار پیش کی جس میں کہا گیا کہ آج کا اجتماع پاکستان میں تمام مسائل پر چیف جسٹس آف پاکستان کے اقدامات کوقدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے تاھم یہ اجتماع ان سے اس تاریخی سو موٹو کا مطالبہ کرتا ہے کہ 48سال سے پاکستان کی مسلسل جنگ لڑنے والے محصورین کیلئے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو ان کو پاکستان لانے کیلئے فوری اقدامات کرے دوسری قرار دادمیں پاکستان میں موجود محب وطن بہاریوں کو ان کی قانونی دستاویزات خصوصاً قومی شناختی کارڈ کی تجدید میں رکاوٹوں کو فوری طور پر ختم کیا جائے کیونکہ اس کی بنیاد پر وہ قانونی حقوق سے محروم ہیں ۔

سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں حیدر علی حیدر ، لطیف پریمی ، جہانگیر خان، بلقیس اسلام،افسر مرشد آبادی اور کامران بہاری شامل تھے جبکہ ممتاز شاعر ڈاکٹر انیس الحق انیس ، سید افتخار احمد رشک نے منظومات پیش کئے۔ اس موقع پر شاہین مصور، جاوید فاروقی، خواجہ ذوالقرنین، جعفر الحسن، محمد اقبال صدیقی، نور عالم نیاز اور دیگر موجود تھے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں