انشورنس کو صنعت کا درجہ دیا جائے،سخت قوانین چھوٹی کمپنیوں کو دیوالیہ کر رہے ہیں ،لاہور انشورنس انسٹی ٹیوٹ

جمعرات 13 اگست 2020 17:41

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 اگست2020ء) لاہور انشورنس انسٹی ٹیوٹ کے چئیرمین محمد حسام نے کہا ہے کہ انشورنس سیکٹر کو توجہ دئیے بغیر اقتصادی ترقی کا حصول ناممکن ہے۔ حکومت اس شعبہ کو بھرپور توجہ دے، ٹیکسوں میں کمی کرے اور غیر ضروری سخت قوانین میں نرمی لائے جواس شعبہ میں سرمایہ کاری کے راستہ میں رکاوٹ ہیں۔ سخت قوانین کی وجہ سے متعدد انشورنس کمپنیان دیوالیہ ہو چکی ہیں اور اس سلسلہ کو روکنے کی ضرورت ہے۔

محمد حسام جو انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان نارتھ زون کے چئیرمین بھی ہیں نیکہا کہ پاکستان کے انشورنس سیکٹر سے ایک لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے اور اس سالانہ بیس ارب روپے تک کے ٹیکس بھی ادا کر رہا ہے مگر اسے وہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے جس کا یہ مستحق ہے۔

(جاری ہے)

جنرل انشورنس کے شعبہ پر سترہ فیصد سے زیادہ ٹیکس عائد ہیں جبکہ نجی شعبہ کو قومی اثاثوں کا بیمہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں تھرڈ پارٹی موٹر انشورنس لازمی نہیں ہے جبکہ مقامی کمپنیوں کے کمائے ہوئے منافع کا بڑا حصہ دیگر ممالک میں کام کرنے والی بڑی کمپنیوں کو منتقل ہو جاتا ہے۔ہیلتھ انشورنس پر ٹیکس کم کرنے کی ضرورت ہے جبکہ فیڈرل انشورنس فیس کو اسی شعبہ کی ترقی کے لئے استعمال کیا جانا چائیے۔اس موقع پر ایف پی سی سی آئی مرکزی قائمہ کمیٹی برائے انشورنس کے کنوینر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ اس شعبہ کو مراعات دینے کی ضرورت ہے تاکہ کاروباری برادری اور عوام کو نقصانات سے بچایا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اسلامی انشورنس کا سلسلہ بھی تاخیر سے شروع کیا گیا جسکی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر اسلامی انشورنس کا حجم 23.7 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں یہ ابھی تک چند ارب روپے سے آگے نہیں بڑھا ہے۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں