پاک ایران دوستی لازوال ہے،ہمیشہ قائم رہے گی،بہرام کیان

میڈیا کے وفود کا تبادلہ انتہائی ضروری ہے،صلاحیتوں سے استفادہ کرنے سے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی،ڈائریکٹر ایرانی کلچرل سینٹر ایران کا محکمہ انفارمیشن ہمارے پیمرا سے رجوع کرے تاکہ قانونی طور پر ایرانی چینلز پاکستان میں د یکھے جاسکیں،مبشر میر ،آغا مسعود حسین معاملات خراب کرنے میں سامراجی قوتیں ملوث ہیں،کراچی ایڈیٹرز کلب کی فکری نشست سے منظر نقوی،کرنل مختاربٹ اور دیگر کا خطاب

بدھ 27 جنوری 2021 19:08

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جنوری2021ء) ایرانی کلچرل سینٹر کے ڈائرئریکٹر جنرل بہرام کیان نے کہا ہے کہ پاک ایران دوستی لازوال ہے، اور ہمیشہ قائم رہے گی، آرٹس کلچر ادب کے حوالے سے دونوں ممالک ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ پاکستانی اور ایرانی میڈیا کے وفود کا تبادلہ انتہائی ضروری ہے، ثقافتی لحاظ سے دونوں ممالک آپس میں تاریخی حیثیت کے حامل ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے خانہٴ انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران کی 42ویں سالگرہ کی مناسبت سے ایک فکری نشست کے موقع پر کراچی ایڈیٹرز کلب کے عہدیداران اور ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر خانہ فرہنگ کے پبلک ریلیشن آفیسر نجم الدین موسوی کے علاوہ کراچی ایڈیٹرز کلب کے صدر مبشر میر، سیکریٹری جنرل منظر نقوی ، سینئر نائب صدر کرنل (ر) مختار بٹ ، نذیر لغاری، شاہد جتوئی، آغا مسعود، نعیم طاہر، محترمہ خورشید حیدر، حسینہ جتوئی اور نعیم الدین بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے بہرام کیان نے کہا کہ کلچر کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کا ہمیشہ خطے میں اہم کردار رہا ہے۔

اس طرح کی فکری نشست کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے، درمیان میں کچھ فاصلہ آگیا تھا، جس کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، کورونا وائرس نے بھی دونوں ممالک کو نقصان پہنچایا ہے۔ میڈیا کی اہمیت کیا ہے، اس کی اہمیت آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں، پاک ایران میڈیا کے وفود کے تبادلوں کی بہت ا ہمیت ہے اور یہ وقت کا تقاضہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک ایران تعلقات قدیم ہیں اور تاریخی حیثیت رکھتے ہیں، ہم کچھ چیزوں پر کلچر کے حوالے سے توجہ مرکوز کرسکتے ہیں جس کے مثبت نتائج برآمد ہونگے، خاص کر سندھ میں جو تاریخی اثاثہ جات ہیں، وہ بہت اہمیت کے حامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے ،پاک ایران کے درمیان فاصلے کم ہوئے ہیں، ہمارے مشترکہ دشمن پاک ایران تعلقات اور تشخص کو نقصان پہنچانے کی ہمیشہ سے کوشش میں لگے رہے ہیں، مگر وہ ہر محاذ پر ناکام رہے۔ بہرام کیان نے کہا کہ جس طرح ایران کے خلاف مخالف میڈیا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، اسی طرح پاکستان کے خلاف بھی زہر اگلا جاتا ہے، جس کا سامنا دونوں ممالک کررہے ہیں۔

میں تو یہ کہوں گا کہ اس وقت جو پاکستان اور ایران کی صورتحال ہے لوگ آتے ہوئے ڈرتے ضرور ہیں، لیکن جو آجائے وہ اصل صورتحال دیکھ کر کہتا ہے کہ وہ سب جھوٹ ہے، دونوں ممالک کے حالات بہتر ہیں، اور وہ میڈیا کے مخالف پروپیگنڈے پر ہنستا ہے۔ پاکستان اور ایران کے لوگ انتہائی ملنسار اور محبت کرنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دو سال کے عرصے میں خود مشاہدہ کیاہے کہ پاکستانی میڈیا کا جو جرأت مندانہ کردار رہا ہے وہ اہمیت رکھتا ہے، پاکستانی میڈیا میں بے باکی ہے اور یہاں ایمانداری سے آزادی اظہار کیا جاتا ہے، اس کی مثال دنیا کے بہت کم ممالک میں ملتی ہے۔

بغیر کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے واقعات پیش کیے جاتے ہیں ۔ میڈیا کے درمیان جو فاصلہ آیا اس میں کچھ ہماری بھی کوتاہی رہی ہے، اس کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ فروری میں انقلاب اسلامی کی سالگرہ کے ایام میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پہلے کے مقابلے میں ایرانی میڈیا میں کافی تبدیلی نظر آئے گی۔ انہوںنے ایران میں میڈیا کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایران میں ہزاروں کی تعداد میں نیوز ایجنسیاں، اخبارات اور مجلے شائع ہوتے ہیں۔

ادب ، کھیل اور کلچر سے متعلق مجلے شائع ہوتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر شائع ہونے والے مجلوں اور اخبارات کیلئے ٹنوں کے حساب سے پیپرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کی جانب سے سالانہ اخبارات اور مجلوں کیلئے 21 ارب ایرانی روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس وقت ایران میں تقریباً 326غیرملکی ایجنسیوں کے نمائندے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ، تقریباً 16زبانوں میں نیوز آن ائیر کی جاتی ہیں۔

98 غیرملکی چینل ایران میں دیکھے جاسکتے ہیں، جس میں پاکستانی چینل کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اگر آپ انقلاب سے قبل اور بعد کا جائزہ لیں تو آپ کو خود ایرانی میڈیا میں بہت زیادہ تبدیلی محسوس ہوگی۔ انہوں نے کہا اس طرح کی نشستیں ہوتی رہنی چاہئیں اور یہ شروعات ہوگئی ہے جو جاری رہے گی، ہم چاہتے ہیں کہ پاک ایران میڈیا میں آپس کے تعلقات اور روابط ہوں تاکہ تعلقات کو مزید بہتر بنایا جاسکے۔

بعدازاں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کلب کے صدر مبشر میر نے میزبان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے انتہائی مشکور وممنون ہیں ۔آپ نے ایرانی میڈیا کے حوالے سے جو آگاہی دی ہے، اس سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور جان کر خوشی ہوئی کہ اتنی بڑی تعداد میں میڈیا کے نمائندے موجود ہیں اور بڑی تعداد میں اخبارات شائع ہوتے ہیں، جہاں تک بات ایران کے خلاف پروپیگنڈے کی بات ہے تو اتنی بڑی تعداد میں اخبارات کا شائع ہونا سارے پروپیگنڈے کی نفی ہے۔

مبشر میر نے کہا کہ ہمارے لیے جاننا ضروری ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان میڈیا کے جو تعلقات ہیں، وہ اس لیول پر نہیں آسکے جو گذشتہ 3سی4 دہائیوں میں ہم نے د یکھے ۔تاریخی اعتبار سے دونوں ممالک کا آپس کا رشتہ انتہائی مضبوط ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ برصغیر کا تعلق فارسی زبان سے رہا ہے، وہ انمول ہے، ہمارے بہت سے لوگ فارسی زبان اور ادب کے ساتھ وابستہ ہیں اور اپنی زندگی میں بہت سی مثالیں فارسی ادب سے دیتے ہیں اور حافظ شیرازی، خیام اور فردوسی کا ذکراسی عقیدت سے کرتے ہیں جس طرے ہم اپنے اکابرین کا کرتے ہیں۔

آپ نے جن معاملات کا ذکر کیا ہے، اس کا سامنا دونوں ممالک کی عوام کو ہے، وہ یقینا درست ہے۔ پاکستان نے اس کا سامنا بہت زیادہ کیاہے، اور اس وقت بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں، ایک چیز بڑی شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے عوام کو اخبارات اور میڈیا جوڑ سکتا ہے۔ میڈیا کے نمائندے ایک دوسرے کے اخبارات سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔ اس موقع پر انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ پاکستانی میڈیا کی پالیسی لبرل ہے، بہت سارے ٹی وی چینلز پاکستان میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

ایران کے کچھ چینلز جن میں سحر ٹی وی شامل ہے، یہاں دیکھا جاتا ہے، ہماری خواہش ہے کہ آپ کے انفارمیشن کا محکمہ خصوصی طور پر ہمارے پیمرا سے رجوع کرے تاکہ قانونی طور پر ایرانی چینلز پاکستان میں د یکھے جاسکیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے نمائندوں کے وفود کے تبادلوں کی تجویزقابل تعریف ہے ، ہم اس کو سراہتے ہیں اور پاکستانی میڈیا سے متعلق لوگ بھی اس کو سراہیں گے۔

ہمارے بہت سارے دوست ایران کا دورہ کرچکے ہیں ،ماضی میں ایرانی طلباء پاکستانی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آتے تھے، اب پاکستان کے لوگ دینی تعلیم کیلئے ایران جاتے ہیں۔ اگر میڈیا کے ذریعے اس سلسلے کا آغاز ہوتا ہے یہ ہمارے لیے بہت بہتر ہوگا، ہم چاہتے ہیں کہ میڈیا نمائندوں کو آگاہی کیلئے آپ ایران کے اخبارات اور رسائل یہاں بھیجیں، یہاں کے پریس کلب اور لائبریریوں میں رکھوائے جائیں تاکہ لوگ ان سے استفاہ کرسکیں۔

اس موقع پر آغا مسعود نے کہا کہ یہ تجویز انتہائی عمدہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط روابط کیلئے وفود کا تبادلہ ہوتے رہنا چاہیے۔ اس سے ایک دوسرے کے درمیان تفہیم پیدا ہوگی ، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات خراب کرنے میں بعض سامراجی قوتیں ملوث ہیں، ہم اکثر و بیشتر ان کی نشاندہی بھی کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانیوں کو فارسی زبان سے محبت رہی ہے، کراچی ایڈیٹرز کلب کے سیکریٹری جنرل منظر نقوی نے خطاب کرتے ہوئے تجویز دی کہ پاکستان اور ایران دونوں اسلامی ملک ہیں، ہماری تہذیب، ثقافت اور تاریخ بہت پرانی ہے اور مذہبی لحاظ سے بھی پاک ایران تعلقات جس طرح کے ہونے چاہیے تھے، وہ نہیں ہوسکے ۔

انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ثقافتی ، ادبی اور تجارتی تعلقات کو بہتر سے بہتر بنایا جائے ، آپ نے جو تجاویز دی ہیں ، ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہ ایران کے ہر شعبہ فکر کے لوگوں کو پاکستان آنا چاہیے، اس سے ہم آہنگی بڑھے گی، ایران کی صحافی پاکستان آئیں گے تو کراچی میں اُن کو کراچی ایڈیٹرز کلب خوش آمدید کہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تجویز ہے کہ اگر کوئی پاکستانی صحافی ایران کے بارے میں کچھ لکھ کر آپ کو بھیجتا ہے، تو آپ کو اس کا بھرپور جواب بھی دینا چاہیے، اس سے اس کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی۔

آپ کے یہاں ایک خصوصی شعبہ ہونا چاہیے جو آپ کو پروموٹ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرسکے۔ ہماری پوری محبتیں آپ کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا قومی ترانہ بھی فارسی میں ہے، حسینہ جتوئی نے اس موقع پر کہا کہ ادبی اور ثقافتی لحاظ سے ہم ہمیشہ آپ کا ساتھ دیں گے ، کلچر اور میڈیا پبلک ڈپلومیسی کا بہت بڑا ذریعہ ہے، ان کی وجہ سے دونں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں۔

پاک ایران میڈیا کے لوگ ایک دوسرے ممالک کے لیے کچھ اچھی چیزیں اردو اور فارسی میں ترجمہ کرکے بھیج سکتے ہیں، وہ شائع کیے جائیں اس کے اچھے ثمرات سامنے آئیں گے اور غلط فہمیاں دور ہونگی۔ کرنل (ر) مختار بٹ نے کہا کہ پاک ایران تعلقات 1947 سے مثالی رہے ہیں، ایران نے ہر لحاظ سے پاکستان کی مدد کی ہے ، تعلقات اچھے ہوں تو دشمن کو ہمیشہ کھٹکتے ہیں، جو ثقافتی سرگرمیاں ہوتی ہیں دونوں ممالک کو مزید قریب لانے کا سبب بنتی ہیں۔

اس موقع پر نعیم الدین نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ کراچی آج بھی بہت بڑا ثقافتی شہر سمجھا جاتا ہے، کراچی شہر میں کسی زمانے میں دو ممالک کے ریستوران بہت مشہور ہوا کرتے تھے، جن میں ایک ایرانی ہوٹل اور دوسرا چائنیز ریستوران۔ ایرانی ہوٹل تک غریب اور عام آدمی کی رسائی ممکن تھی، جو اب ناپید ہوگئی ہے۔ میری تجویز ہے کہ ایرانی سرمایہ کار اس طرف بھی توجہ دیں ، پاکستان میں ترکی کے ڈرامے بہت مقبول ہیں، ہماری خواہش ہے کہ پاکستان میں ایرانی ڈراموں کا اردو میں ترجمہ کرکے آن ایئر کیا جائے اور ایران کے سیاحتی مقامات کے بارے میں مکمل معلومات اور معیاری پیکج متعارف کرائے جائیں تاکہ پاکستانی عوام زیادہ سے زیادہ ایران سیاحت کے غرض سے جائے۔

محترمہ خورشید حیدر نے کہا کہ ایرانی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ ایرانی ڈرامے پاکستان میں دکھانے کے لئے مناسب انتظامات کیے جائیں۔ نذیر لغاری نے کہا کہ یہاں پر جتنی تجاویز دی گئی ہیں میں ان سب سے اتفاق کرتا ہوں ، ایرانی شہروں کے بارے میں دستاویزی فلمیں اردو ترجمے کے ساتھ پاکستان میں دکھائی جائیں تو ہمارا تعلق مزید مضبوط اور گہرا ہوگا۔

پاکستان میں اکثریت ایران سے تعلقات بہتر چاہتی ہے، یہاں سے لوگ زیارتوں کیلئے بھی جاتے ہیں ۔ نعیم طاہر نے کہا کہ پاکستان میں ایران کے میڈیا ہاؤسز کے نمائندے مقرر کیے جائیں، اسی طرح ہمارے نمائندے تہران میں جائیں ، جس سے ہمارے صحافیوں کو لکھنے کا موقع ملے گا اور اخبارات میں جگہ بھی ملے گی۔ پاکستان کے اخبارات میں ایران کی ڈائری اور ایران میں پاکستان کی ڈائریاں شائع ہوں ۔ ڈائریکٹر جنرل بہرام کیان نے کلب کے ارکان کی جانب سے دی جانے والے تجاویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے پورا اتفاق کیا او رکہا کہ ہم نے اس کو نوٹ کرلیا اور جلد اس پر اقدامات کیے جائیں گے۔ کلب کے سیکریٹری جنرل منظر نقوی نے میزبان کا شکریہ ادا کیا اور اپنے چائنا کے دورے سے متعلق کتاب پیش کی۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں