پشاور کی مقامی عدالت نے سینئر صحافی کی جانب سے دائرہرجانے کے مقدمے میں پاکستان میں امریکی سفارتخانے، پشاور میں قونصلیٹ اور ایمیگریشن حکام کو 23 فروری پر پیشی کے لئے دوبارہ نوٹس جاری کردیے ہیں

صحافی محمود جان بابر نے دوران سفر استنبول ائر پورٹ پر انہیں امریکہ جانے سے روکنے کے معاملے پر عدالت سے انصاف کے لئے رجوع کیا ہے

Umer Jamshaid عمر جمشید منگل 26 جنوری 2021 13:30

پشاور کی مقامی عدالت نے سینئر صحافی کی جانب سے دائرہرجانے کے مقدمے میں پاکستان میں امریکی سفارتخانے، پشاور میں قونصلیٹ اور ایمیگریشن حکام کو 23 فروری پر پیشی کے لئے دوبارہ نوٹس جاری کردیے ہیں
پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 26 جنوری2021ء،نمائندہ خصوصی،امجد علی خان) کی مقامی عدالت نے سینئر صحافی کی جانب سے دائرہرجانے کے مقدمے میں پاکستان میں امریکی سفارتخانے، پشاور میں قونصلیٹ اور ایمیگریشن حکام کو 23 فروری پر پیشی کے لئے دوبارہ نوٹس جاری کردیے ہیں، صحافی محمود جان بابر نے دوران سفر استنبول ائر پورٹ پر انہیں امریکہ جانے سے روکنے کے معاملے پر عدالت سے انصاف کے لئے رجوع کیا ہے۔

سول جج رفاقت ظہور کی عدالت میں دائر مقدمے کی سماعت کے دوران ترکش ایئرلائن نے اپنے وکیل کے ذریعے عدالت میں حاضری دی جبکہ پاکستان میں امریکی سفارتخانے، پشاور میں امریکی قونصلیٹ اور پاکستانی امیگریشن حکام کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا جس پر عدالت نے ان تینوں فریقین کو اگلی پیشی یعنی 23 فروری کو پیشی کے نئے نوٹس جاری کردیے۔

(جاری ہے)

درخواست گذار کی جانب سے قانون دان شاہ نواز عدالت میں پیش ہوئے۔

مقدمے میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ محمود جان بابر کے ساتھ بغیر کسی وجہ کے روا رکھے گئے نامناسب رویے پر امریکی حکومت کے پاکستان میں نمائندہ سفارتخانے، پشاور میں سفارتی دفتر اورترکش ائرلائن سے جواب طلب کرےاور ہونے والے مالی نقصان اور ذہنی دباؤ اور کوفت کا ازالہ کرنے کے لیے ہرجانہ ادا کرے کہ درخواست گذار کوکیوں درست ویزہ رکھنے کے باوجود استنبول ائرپورٹ سے واپس آنے پر مجبور کیا گیا؟ جوکہ ممالک کے مابین لاگو معاہدوں اورقوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ محمود جان بابر کو سال دوہزارسولہ میں جاری کیا گیا پانچ سالہ ویزہ اگلے سال یعنی اگست دو ہزار اکیس تک قابل استعمال تھا تاہم امریکی حکومت نے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس ویزے کو ایسے طریقے سے ختم کرنے کا اقدام کیا جو کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں تھا مقدمے میں کہا گیا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ دیگر ملکوں کے شہریوں کو ویزہ جاری کرنے اور انہیں کسی وجہ سے منسوخ کرنے کا اختیار رکھتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے اسے اپنی ذمے داری پوری کرنی چاہیئے تھی جس میں ویزہ ہولڈر کو کسی بھی طریقے سے ویزہ منسوخی کی اطلاع فرض اولین تھا جو مواصلات کے کسی بھی طریقے سے ممکن ہوسکتا تھا تاہم اس نے ناں تو متاثرہ ویزہ ہولڈر کو ذاتی طور پر آگاہ کیا ناں ہی اس نے پاکستانی میڈیا میں کوئی خبر نشر کی اور ناں ہی اپنی ویب سائت پر ایسی کوئی اطلاع لگائی جس کی وجہ سے درخواست گذار نے جب سفر کا قصد کیا اور ترکش ائر لائن سے ٹکٹ لیا تو اس دوران بھی ائرلائن نے ویزے کی درستگی کی تصدیق لی اوراسی بنیاد پر اسے ٹکٹ جاری کیا، درخواست گذار جب پچیس اکتوبر کی علی الصبح اسلام آباد ائرپورٹ سے روانہ ہوا تو اس دوران بھی پاکستانی ایمیگریشن نے اس کے تمام دستاویزات بمع ٹکٹ اورویزہ کو درست جان کر جہاز پر سوار ہونے کی اجازت دی اگر ویزہ منسوخ ہوچکا تھا تو ترکش ائرلائن نے بھی ٹکٹ کیوں جاری کیا، اسے جہاز پر سوار کیوں ہونے دیا اورپاکستانی ایمیگریشن نے بھی درخواست گذار کو کیوں کلیئر کرکے جانے دیا؟ درخواست میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ فریقین نے اپنے رویے سے درخواست گذار کو سخت ذہنی کوفت، اذیت، مالی و جانی نقصان اورہتک کا نشانہ بنایا اس لئے وہ اس بات کا حقدار ہے کہ فریقین مجموعی یا انفرادی طور پراس کے نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے اسے بطور جرمانہ دو کروڑ ڈالر نقد ادا کریں اورامریکی سفارتخانہ بطور ازالہ اس کو اگلے پانچ سالوں کے لئے ملٹی پل انٹریز کا ویزہ جاری کرے تاکہ درخواست گذار کی مجروح شدہ عزت بحال ہوسکے۔

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں