کراچی پورٹ پر کھڑی 10 ہزار سے زائد استعمال شدہ درآمدی گاڑیاں مارکیٹ میں لانے کا فیصلہ

حکومتی فیصلے سے آٹو پارٹس مینو فیکچرنگ کمپنیوں اور شعبوں میں مایوسی کی شدید لہر دوڑ گئی

جمعرات 22 فروری 2018 14:28

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 فروری2018ء) کراچی پورٹ پر کھڑی 10 ہزار سے زائد استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں کو 6 اکتوبر 2017 کی پالیسی کے تحت مارکیٹ میں لانے کے حکومتی فیصلے سے آٹو پارٹس مینو فیکچرنگ کمپنیوں اور شعبوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز(پاپام) کے سابق چیئرمین عامر اللہ والا اور منیر کے بانا نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے استعمال شدہ گاڑیوں کو پرانی پالیسی کے تحت مارکیٹ میں لانے کے لیے ایمپورٹرز کو خوش کیا اور 4 ماہ کے اندر ہی پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کرڈالا۔

پاپام کے سابق چیئرمین نے خبردار کیا کہ استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں سے متعلق حالیہ پالیسی سے ملکی صنعت کو دھچکا لگا اور نئے آنے والوں کے لیے منفی رحجانات کا باعث بنے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ ایک درآمدی گاڑی سے مقامی صنعت کو تقریبا 3 لاکھ روپے کا نقصان ہوتا ہے جبکہ گزشتہ برس 80 ہزار گاڑیوں کو درآمد کرنے سے 24 ارب کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔

پاپام کے سابق عہدیداروں نے زور دیا کہ حکومت قابل فہم اور شفاف پالیسی کو یقینی بنائے تاکہ مینوفیکچررز کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ زیادہ سرمایہ کاری کریں جس سے ان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور نئے کاروباری حضرات بھی متوجہ ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ آٹو پارٹس مینو فیکچرنگ شعبے سے تقریبا 20 لاکھ 25 ہزار افراد بلواسطہ یا بلاواسطہ واسبتہ ہیں تاہم حکومت کی جانب سے پروڈکشن اور یوٹیلائزیشن کی سطح پر غیر متوقع پالیسی سے خدشات غیر معمولی ہیں۔دوسری جانب آل پاکستان موٹر ڈیلرایسوسی ایشن (اے پی ایم ڈی ای) کے چیئرمین نیایچ ایم شہزاد نے کہا کہ حکومت کے حالیہ فیصلے سے قومی خزانے کو 12 ارب کا فائدہ پہنچے گا۔۔
وقت اشاعت : 22/02/2018 - 14:28:16

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :

متعلقہ عنوان :