
عوامی مزاج اور قانون شکنی
ایک مہذب قوم اور قانون کی پاسداری کے لئے اضافی تربیت کی بھی ضرورت ہے در حقیقت وہی قومیں ترقی یافتہ کہلانے کی مستحق ہوتی ہیں جو اپنی زندگی کسی قاعدے قانون کے تحت گزارتی ہیں
ہفتہ 8 مارچ 2014

کسی بھی ملک کے شہری قانون کی کتنی پاسداری کرتے ہیں اس کا اندازہ اس کی ٹریفک اور اس سے متعلق قواعد و ضوابط کی عملداری سے کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس حولے سے ہونے والے مشاہدے میں اکثر اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ لوگ جہاں کہیں سڑکوں پر ٹریفک قوانین پر عمل کرتے پائے گئے ہیں،وہ ممالک اور اس کے شہری عدل و انصاف کا احترام کرنے والے اور مہذب قوموں میں شمار ہوتے ہیں۔ در حقیقت وہی قومیں ترقی یافتہ کہلانے کی مستحق ہوتی ہیں جو اپنی زندگی کسی قاعدے قانون کے تحت گزارتی ہیں۔مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ہمارے ملک میں ٹریفک رولز کی جس قدر خلاف ورزی ہوتی ہے شاید ہی کسی ملک میں ہوتی ہو۔ٹریفک کی یہ خلاف ورزی ہمارے عمومی مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔
(جاری ہے)
ہم بخوبی اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے لوگ اپنے ہاں قوانین پر کس قدر عمل پیرا ہوتے ہونگے۔
ٹریفک قوانین پر عمل کرنے سے جہاں ٹریفک میں روانی رہتی ہے وہاں حادثات میں بھی نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ موٹر سائیکل ، کار اور ہیوی گاڑیوں کو چلانے کے لئے متعلقہ شخص کو ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لئے ٹریفک رولز کے کڑے امتحان سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور اس کو اسی وقت ڈرائیونگ لائسنس ملتا ہے جب ٹریفک پولیس کو اس بات کی یقین دہانی ہو جاتی ہے کہ متعلقہ شخص گاڑی چلانے کا اہل ہے اور وہ سڑک پر گاڑی چلانے اور سڑک پر لگے ٹریفک بورڈ پر اشاروں کو بھی سمجھتا ہے۔ جس طرح کسی بھی ہسپتال سے پہلے سڑک پر ایک بورڈ ہارن بجانے کی ممانعت لگا دیا جاتا ہے اسی طرح کسی بھی سکول کے قریب ٹریفک کو آہستہ رکھنے کا یا (سپیڈ بریکر) کا اشارہ دکھائی دیتا ہے جس سے نا صرف گاڑی چلانے والے کو آگاہی ہوتی ہے اور اس پر عمل ہونے سے حادثے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں آج صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے جہاں سڑک پر نو پارکنگ کا بورڈ نصب ہو اس کے ساتھ ہی پارکنگ دکھائی دیتی ہے،اور ون وے کی خلاف ورزی تو معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس طرح کسی بھی چوک پر ”سرخ“ اشارے کی خلاف ورزی کر کے اپنی جان کے ساتھ دوسروں کی جانوں سے کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔اسی طرح لاہور ہو یا کوئی اور شہر اس کے باغات میں کھلے رنگ برنگے پھول سب کو بھلے لگتے ہیں۔ اگرچہ ایسی تمام جگہوں پر ایک تنبیہ لکھی بھی دکھائی دیتی ہے ”پھول توڑنا منع ہے“ مگر اکثر لوگ باغبان کی نگاہ سے بچتے پھول توڑنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ کو اکثر گرمیوں کے موسم میں نہروں پر منچلوں کا ہجوم نظر آئے گا اور اس کے ساتھ ہی سائن بورڈ پر ”یہاں نہانا منع ہے“ صرف اس لئے لکھا ہوتا ہے کہ اس جگہ پانی گہرا اور بہاؤ تیز ہے جس سے نہر میں چھلانگ لگانے والا جان سے بھی جا سکتا ہے مگر ہم ”قانون شکنی“ کر کے اس پرخطر شوق کو بے دھڑک پورا کرتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس میں نہانے والا تو اپنی جان سے چلا جاتا ہے مگر اپنے والدین اور عزیز و اقارب کو ہمیشہ کیلئے بے بس اور غمگین کر جاتا ہے۔
ٹریفک کی خلاف ورزی ہو یا پھول توڑنے سے لے کر کوئی اور قانون شکنی یہ معاشرہ کے لئے قابل فخر نہیں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں۔ جو قانون کی پاسداری کرتی ہیں۔ ہمیں از خود اچھا شہری بننے کے لئے قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے آپ خود بھی تکلیف دہ صورت حال کا شکار نہ ہوں اور دوسرے بھی اس سے محفوظ رہیں یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم قانون کا احترام کرنے والے اچھے شہری بنیں گے۔ ورنہ آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والوں کے سامنے بھی قانون شکنی کے مناظر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔
ایک مہذب قوم اور قانون کی پاسداری کے لئے اخلاقی تربیت کی ضرورت جتنی آج ہے پہلے نہ تھی اس کے لئے ہم سب کو مل کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جس سے ہم اپنے ملک و قوم کا مہذب چہرہ دنیا کے سامنے لا سکیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
راوی کی کہانی
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
مزید عنوان
Awami Mizaj Or Qanoon Shikni is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 March 2014 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.