مہنگائی و بیروزگاری کی خوفناک لہر میں حکومت کے معاشی اشاریے

ذخیرہ اندوزوں اور گرانفروشوں کیخلاف تادیبی کارروائی سے ہی مہنگائی کا خاتمہ ہو گا

پیر 22 نومبر 2021

Mehngai O Berozgari Ki Khofnak Leher Mein Hakomat Ke Muashi Ishariye
امیر محمد خان
گزشتہ دنوں مجھے خواب میں 16 دسمبر 2014ء پشاور آرمی پبلک سکول کے وہ معصوم و لہولہان شہید 132 بچے اور دس پندرہ اسی سکول کا لہولہان اسٹاف نظر آیا میں نے دیکھا کہ وہ کسی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے کروڑوں عوام کے سامنے مظاہرہ کر رہے ہیں کہ ہمارے خون کا حساب کیوں نہیں لیا گیا؟صبح اُٹھا تو اپنے آپ سے گھن آنے لگی جب اخبارات دیکھے کہ جنہوں نے اس حملے کی ذمہ داری نہایت ڈھٹائی سے قبول کی تھی اور ہم نے عوام کو شاید دکھانے کیلئے اور وقتی طور شہیدوں کے والدین اور عوام کے غضب سے بچنے کیلئے انہیں دہشت گردوں کی طویل فہرست میں ڈال دیا ان سے ہمارے اکابرین نجانے کس خوف یا دباؤ سے معاہدہ کر چلے ہیں اور انہیں دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا ہم نے ان سے بھی معاہدہ کر لیا جنہوں نے دن کی روشنی میں مسکین پولیس اہلکار جو ہماری حفاظت کرتے ہیں انہیں شہید کر دیا۔

(جاری ہے)

مولانا معیب نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے اپنا اس کو برابر کر دیا اگر فواد چوہدری جیسے بہادر لیڈر حکومت میں دس بھی ہوں تو حکومت کی رٹ قائم ہو سکتی ہے اگر پاکستان جیش محمدی پر سے پابندی ہٹاتا تو ہمارا پڑوسی بڑے آنسو بہاتا اور بین الاقوامی اداروں میں آہ و بکا کرتا کہ پاکستان دہشت گردوں کو آزاد کر رہا ہے دراصل پاکستان اتنے مسائل کا شکار ہے کہ لگتا ہے۔

حکومت کے ہاتھ پیر پھول چکے ہیں اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ معاملات کو کہاں سے پکڑ کر ٹھیک کریں۔
ملک کی فکر کم بلکہ آپس کے کرسیوں کے جھگڑے زیادہ ہیں،دہشت گردوں سے بات ہو سکتی ہے مگر پاکستان کے ان سیاستدانوں سے بات نہیں ہو سکتی جنہوں نے عوام سے ووٹ لیا ہے اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں،یہ بات حقیقت ہے کہ حکومت کا کردار بڑے بھائیوں کا ہوتا ہے اور حکومت کو سب کو لے کر چلنا چاہئے،نجانے حال میں ہونے والے معاہدوں کے بعد ہم FATF کے سامنے کس منہ جائیں گے جو ہماری معیشت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے،اہم فیصلوں کا حل اور معروف طریقہ ”صدارتی آرڈینس“ ہر گز نہیں اگر ایسا ہو تو ملک میں صرف صدر اور وزیراعظم کو ہونا چاہئے اربوں روپے کا اسمبلیوں پر خرچ کیوں؟موجودہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کیلئے ایک روشنی کی کرن تھی مگر وہ کرن اپنی روشنی نہیں دکھا پا رہی اگر تحریک انصاف کے سمجھدار لوگ سر جوڑ کر سنجیدگی سے نہ بیٹھے تو نقصان حکومت کا نہیں صرف نوجوانوں کیلئے امید کی آخری کرن تحریک انصاف کا ہو گا چونکہ ہمارے ملک میں آج کی اتحادی جماعتیں کئی سالوں سے ہر جماعت کی حکومت کی اتحادی ہیں اس لئے ملک کی مہنگائی کا مسئلہ ہو یا کوئی اور پاکستان کی عوام نے ان اتحادیوں کے منہ سے ایک جملہ نہ سنا ہو گا اگر وہ کچھ بولتے ہیں تو حکومت کی پالیسیوں کو سہارہ نہیں دیتے وہ بھی اسی طرح کا مطالبہ کرتے ہیں جیسے حزب اختلاف ہوں دن رات عوام کو اطمینان دلانے والے سچ یا جھوٹ صرف اور صرف تحریک انصاف کے وزراء،ہی ہیں۔


وزیراعظم کو بھی معاملات کا بخوبی علم ہے مگر نجانے حکومت وہ کون ہے کہ وزیراعظم کی ہدایات کے باوجود بھی ذخیرہ اندوزوں پر بلا تفریق ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہا اگر سندھ میں دو شوگر فیکٹریاں بند ہیں تو بقول ترجمانوں کے وہ تو ہیں ہی نالائق عوام کو تنگ کرنے والے مگر پنجاب میں ان لوگوں کی فیکٹریاں ہیں جو حکومت کے مزے لے رہی ہیں اور ذخیرہ اندوزی میں بھی اپنا کمال رکھتی ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ عوام پانچ سال بعد ہماری کارکردگی دیکھیں۔
”حکومت کا اشاریہ کچھ بتاتا ہے دنیا کے ماہر معاشیات کچھ اور“ ملک میں اگر حکومتی اقدامات کی بنیاد پر پٹرولیم مصنوعات‘بجلی‘گیس‘ ادویات اور یوٹیلٹی سٹورز میں بھی روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخ بلائے جان بن کر بتدریج نہ بڑھ رہے ہوتے‘مصنوعی مہنگائی مسلط کرنے والے ذخیرہ اندوزوں ‘ناجائز منافع خوروں اور من مانیاں کرنے والے مختلف مافیاز کو ریاستی اتھارٹی بروئے کار لا کر نکیل ڈالی جا چکی ہوتی اور حکومتی اقدامات کی بنیاد پر عوام کو ان کے غربت‘مہنگائی‘بے روزگاری کے مسائل میں فی الواقع ریلیف مل رہا ہوتا اور اسی طرح حکومت اپنے اپوزیشن دور والے دعوؤں کی بنیاد پر آئی ایم ایف کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوتی اور اس کی شرائط کے عوض قرض کے ٹکڑے لینے پر مجبور نظر نہ آتی۔

تحریک انصاف کے 2018ء کے انتخابات سے قبل یہ تو وعدے تھے جنہیں اگر پورا کر لیا جاتا تو حکومت آئندہ 5 برس ہی نہیں بلکہ 15 برس حکومت بھی رہتی جن ممالک سے پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کا مقابلہ کیا جاتا ہے،یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان میں سے بیشتر کے لوگوں کی فی کس آمدنی پاکستان سے کتنی زیادہ ہے مہنگائی کی عالمی شرح 4 فیصد سے کم ہے جبکہ پاکستان میں 9.8 فیصد ہے یعنی دو گنا سے بھی زیادہ ہے پٹرولیم کے نرخوں میں اضافے سے صنعتی پیداوار سست ہو رہی ہے۔

صنعتوں سے گیس پر سبسڈی واپس لی جا رہی ہے۔گیس کی کمی پوری کرنے کیلئے تاریخ کا سب سے مہنگا کارگو خریدنے جانے کی بھی خبریں ہیں۔حکومت یا اداروں کے مرتب کردہ معاشی اشاریے درست ہوں گے ان سے ملک کے روشن مستقبل اور معاشی استحکام کی نوید ملتی ہے مگر لمحہ موجود میں اس سے غریب اور متوسط طبقے کی فکر مندی دور نہیں ہوتی بہتر اشاریوں کی منطق اس وقت غائب ہو جاتی ہے جب لوگ آٹا دال سبزی پھل اور کھانے پینے کی دوسری اشیاء خریدنے دکانوں پر جاتے ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ جتنے پیسے ان کی جیب میں ہیں ان سے تو ضرورت کی آدھی چیزیں بھی نہیں خریدی جا سکتیں،روزگار کے مواقع بڑھائے اور ضروری اشیاء کے نرخ عام آدمی کی رسائی میں رکھنے کی تدابیر اختیار کرے۔

حزب اختلاف کی صورتحال یہ ہے بجائے اس کے لیڈر آگے ہو اور عوام پیچھے ان کی صورتحال یہ ہے کہ عوام آگے اور لیڈر پیچھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mehngai O Berozgari Ki Khofnak Leher Mein Hakomat Ke Muashi Ishariye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 November 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.