مہنگائی و بے روزگاری کا اژدھام اور حکومتی ترجیحات

این آر او سے حکومتی انکار پر حزب اختلاف کا مذاکرات سے راہ فرار سوالیہ نشان ہے

پیر 28 جون 2021

Mehngai o Berozgari Ka Azdaham Aur Hakomati Tarjeehat
امیر محمد خان
کسی دانا کا قول تھا کہ ”کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے“ یہ قول پاکستانی سیاست میں کچھ اس طرح ہو گیا ہے کہ ”اتنا جھوٹ بولو کہ سچ کا گمان ہو“۔پاکستان کی سیاست میں یہ مظاہرہ گزشتہ 3 برس میں کچھ زیادہ ہو رہا ہے،سیاست ویسے ہی بدنام ہو چلی ہے اگر عام زندگی میں وعدہ خلافی کرے یا جھوٹ بولے تو یہ ہی کہا جاتا ہے”یار ہمارے ساتھ سیاست نہ کرو“اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے سیاست کو کس نظر دیکھا جانے لگا ہے۔

حزب اختلاف اور حکومتی اراکین میں جھوٹ بولنے کا مقابلہ نظر آتا ہے جس بناء پر ”عوامی نمائندگان کے اس معتبر ایوان کی کارروائی“ ”ٹھپ“ پڑی ہے جہاں عوامی فلاح و بہبود کے معاملے پر بات نہیں ہوتی اگر غلطی سے ہو بھی جائے تو افہام و تفہیم کے بجائے وہاں مچھلی بازار بن جاتا ہے اور کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ایسی صورتحال میں وہ اراکین جو Electable کہلاتے وہ کسی نظریہ سے بالاتر ہوتے ہیں ہر آنے والی حکومت میں شامل ہونا اپنا حق تصور کرتے ہیں اور ہر حکومت بھی اپنے حکومتی امور چلانے،اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے ان کی مرہون منت ہوتی ہے پاکستانی سیاسی کی پارلیمانی تاریخ میں شاید ہی وہ خوش آئند دور آیا ہو جب یہ Electables حکومت کا حصہ نہ بنے ہوں اور یہی Electables حکومت کی تباہی و ناکامی کا سبب بنتے ہیں جب حکومت کو ایوان میں کسی معاملے پر اراکین کی رائے یا ووٹ مطلوب ہوتی ہے تو یہ لوگ اپنے سینوں پر اپنی قیمت لگا کر میدان میں آجاتے ہیں اور قیمت Full Package نہیں بلکہ ہر رائے شماری کے وقت علیحدہ ہوتی ہے اور حکومت یا حزب اختلاف کی ”مہربانیاں ان پر نچھاور ہو جاتی ہیں،ماضی قریب میں اس کا مظاہرہ سینٹ کے چیئرمین اور سینٹ کے قائد حزب اختلاف کے چناؤ کے وقت عوام نے اور بیرونی دنیا میں ہماری پارلیمان کا مذاق اڑانے والے مبصرین نے دیکھا یہ بات اہم کہ ایسے اراکین کی تمام تر توجہ اس طرف ہوتی ہے کہ انتخاب میں خرچ کئے گئے بھاری اخراجات کو سود سمیت کیسے واپس لیا جائے اسی خرید فروخت کی وجہ سے حکومتی امور چلانا مشکل ہو جاتا ہے،اس وقت ایک مرتبہ پھر حکومت تذبب کا شکار ہے چونکہ یہ موقع بہت جلد بجٹ کی منظوری اور خاص پر حالیہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی وزارت کو قانونی شکل فراہم کرنے کیلئے سینٹ کارکن کے انتخابات کی طرف جانا پڑے گا مگر حکومت کو پریشانی ہے کہ ان کا انجام بھی حفیظ شیخ سابق وزیر خزانہ جیسا نہ،حکومت کو اس دفعہ مشکلات ٹوٹی پھوٹی حزب اختلاف سے نہیں بلکہ اپنی جماعت کے اراکین و اتحادیوں سے خوف ہو گا چونکہ یوسف رضا گیلانی کی قائد حزب اختلاف کی نشست جو حکومتی اراکین کی ایماء پر انہیں ملی پی پی پی اپنا حصہ لے چکی ہے یہی صورتحال بجٹ کی منظوری کے وقت بھی پیش ہو گی۔

(جاری ہے)


دنیا میں ہر ملک کے اندر حکومت اور اپوزیشن ہوتی ہیں ان کے آپس میں اختلافات بھی فطری ہیں لیکن مہذب جمہوری ممالک اور پسماندہ ممالک میں فرق یہ ہے کہ وہاں حکومت خارجہ پالیسی اور مالیاتی پالیسی سمیت ہر اہم ریاستی معاملے پر اپوزیشن سے ڈائیلاگ کرتی ہے، قانون سازی کے معاملے میں تو حکومت اور اپوزیشن میں مسلسل تعاون اور مشورہ جاری رہتا ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں بات تک کرنے کو تیار نہیں۔

حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہم اپوزیشن سے بات کرتے ہیں تو وہ این آر او مانگتے ہیں یہ بھی ایک عجیب اور غور طلب مسئلہ ہے حزب اختلاف کے بیش تر اراکین نیب ذدہ ہیں،حکومت کا کہنا ہے نیب ایک غیر جانبدار ادارہ ہے اگر اس مفروضہ کو مان لیا جائے تو حکومت کے اس دعویٰ کا کیا کہ ”ہم جب بھی مذاکرات کی بات کرتے ہیں حزب اختلاف این آر او مانگتی ہے اگر واقعی نیب حکومت کے زیر اثر نہیں تو پھر حزب اختلاف یہ بے وقوفانہ مطالبہ کیوں کرتی ہے؟گوکہ نیب اپنے عمل اور کارکردگی سے حزب اختلاف کے ان بیانات کو سچ ثابت کرتی ہے یہاں تک پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں بھی اس کا اظہار کر چکی ہیں الزام و شک کے شعبے میں حزب اختلاف کے اراکین گرفتار ہو کر پہلے جیل جاتے ہیں اور جبکہ حکومتی اراکین کی صرف تحقیق ہوتی ہے اور وہ سیر سپاٹے کرتے پھرتے ہیں اپوزیشن یہ کہتی ہے کہ ایک طرف یہ ہمیں جیلوں میں ڈال رہے ہیں دوسری طرف ہم سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں یہ دو عملی کیوں؟حکومت کچھ عرصے سے قانون سازی پر مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن کو ماضی میں ایسے تلخ تجربات ہو چکے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں۔


بجٹ کے وقت بھی ایوان میں سنجیدگی ناپید ہوئی اور صرف شور شرابے سے ہی سے عوام مستفید ہوئے۔پی ٹی آئی اپنے انتخابی بیانات کی طرح عوام کو بجٹ میں سبز باغ دکھانے کے درپے ہے اور اس میں وزیر خزانہ شوکت ترین بھی شامل ہو چکے ہیں جو وزیر بننے سے قبل موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے نقاد اور مخالفت کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ معیشت کی بہتری کے حکومتی دعوے صحیح ہوں اور بجٹ میں عوام پر مزید پہاڑ نہ ٹوٹیں،بجٹ سے پہلے ہی عوام کی زندگی مشکلات کا شکار ہے،بے روزگاری ،مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے۔

2013ء میں جب سابقہ وزیراعظم نواز شریف جدہ آئے تو ان سے میں نے دریافت کیا کہ میاں صاحب اب آپ معیشت کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟انہوں نے اپنے وزیر خزانہ کو اپنے ساتھ بیٹھایا اور کہا کہ اسحق ڈار تفصیل سے بتائیں،ڈار صاحب نے 10 منٹ تفصیل بتائی، ”10 فیصد ایسے،5 فیصد شرح ایسے،ایک فیصد ایسے،سٹاک مارکیٹ ایسی،اسٹیٹ بینک ایسا“،مجھے انہیں روکنا پڑا کہ میاں صاحب ان اعداد و شمار سے نہ میرا تعلق نہ عوام کا معیشت سے متعلق ایک سوال پر آپ نے مجھے ٹرک کی بتی کی طرف لگا دیا ہے یہی صورتحال آج بھی ہے اخبارات،ٹی وی پر ماہرین جن میں حکومتی اور غیر جانبدار بھی ہیں معیشت کی بہتری کی نوید دے رہے ہیں،دوسری جانب حزب اختلاف پور زور لگا رہی ہے کہ یہ اعداد شمار غلط ہیں،دونوں کی باتیں ٹھیک لگتی ہیں،ایسے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگے معیشت کی بہتری صارف کو مارکیٹ اور دکانوں پر نظر آنا چاہئے جہاں اشیاء خورد نوش،آٹا،چینی،دال،گھی،پیٹرول،عوام کی دسترس سے بجٹ سے قبل ہی بہت دور ہیں،اللہ تعالیٰ خیر کرے۔

کسی ملک کی مجموعی ترقی اور خوشحالی دیکھنی ہو تو معاشی اشاریوں کے علاوہ انسانی وسائل،جمہوری حقوق،آزادی اظہار اور غربت کے پیمانوں کو دیکھا جاتا ہے گو ابھی پاکستان میں معیشت بہتر ہو رہی ہے لیکن سیاست کے فرنٹ پر فی الحال بہتری کا امکان نظر نہیں آرہا اگر تو ملک کی مجموعی صورتحال میں بہتری لانی ہے تو پھر سیاست اور معیشت سمیت تمام محاذوں پر بہتری لانا پڑے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mehngai o Berozgari Ka Azdaham Aur Hakomati Tarjeehat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 June 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.