خواتین اور ہمارا معاشرہ

پاکستان میں ہر سال سینکڑوں عورتوں کو ونی‘سوارہ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے

بدھ 10 نومبر 2021

Khawateen Aur Hamara Muashra
بشریٰ شیخ
وفاقی شریعت عدالت نے خوفناک لڑائی جھگڑوں میں بدلِ صلح کے طور پر غیر شادی شدہ عورت کا رشتہ دینے کی بھیانک رسم ونی یا سوارہ کو غیر اسلامی قرار دے دیا ہے،چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل فل بنچ نے سوموار کے روز سکینہ بی بی وغیرہ کی اس حوالے سے دائر کی گئی شرعی درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد قرار دیا ہے کہ سوارہ کی رسم اسلامی تعلیمات کے منافی ہے،فاضل عدالت نے مزید قرار دیا ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں یہ رسم،جو ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے رائج ہے،قطعاً غیر اسلامی اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے،عدالت نے وضاحت کی ہے کہ اس رسم کے خلاف اسلام ہونے پر جمہور علما کا اجماع ہے،واضح رہے کہ سوارہ کی رسم جس میں عورت کو بدلِ صلح کے طور پر دیا جاتا ہے اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے رائج چلا آ رہا ہے،حکومت نے تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت اس رسم کو قابل تعزیر جرم قرار دیا ہوا ہے لیکن پھر بھی ملک کے مختلف علاقوں میں یہ رواج موجود ہے،اس رسم کو پنجاب میں ونی جبکہ سرحد میں سوارہ کہا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل فل بنچ نے ریمارکس دیے کہ ”کم عمر لڑکی کو دے کر تنازعات حل کرنے کی روایت اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔“
وفاقی شرعی عدالت میں جیورسٹ کونسل ڈاکٹر محمد اسلم خاکی کا کہنا تھا کہ ونی،خواتین کے کم و بیش چار بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ان کے مطابق ملزم خاندان کی جانب سے دی جانے والی لڑکی کے ساتھ متعصبانہ سلوک کیا جاتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں انہیں بنیادی سہولیات سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ ان لڑکیوں کی شادی ان کی مرضی کے بغیر کسی بھی شخص سے کر دی جاتی ہے اور تیسرا مسئلہ یہ کہ وہ مہر کی حقدار ہوتی ہیں نہ ہی شادی کو ختم کرنے کے لئے خلع کی قانونی درخواست دائر کر سکتی ہیں۔

ڈاکٹر محمد اسلم خاکی کا مزید کہنا تھا کہ قتل کے کیس کو حل کرنے کا قانونی طریقہ دیت یا خون بہا کی رقم ہے جو اسلام میں بھی قابل قبول ہے۔تاہم روایتی نظام میں تنازعات کو حل کرنے کیلئے ونی یا سوارہ کو جائز سمجھا جاتا ہے لیکن علما اسے غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔
واضح رہے سوارہ جیسی قبیح رسم میں تنازعات ختم کرنے کے لئے تلافی کے طور پر لڑکیاں اور اکثر کم سن بچیوں کی شادی کر دی جاتی ہے یا انہیں متاثرہ خاندان کو بطور غلام دے دیا جاتا ہے۔

ایسا اکثر قتل کے کیس میں کیا جاتا ہے۔یہ بغیر رضا مندی یا کم عمری میں شادی کی قسم ہے۔سزا کا یہ فیصلہ قبائلی عمائدین کی کونسل کی جانب سے کیا جاتا ہے جسے جرگہ کہتے ہیں۔درخواست گزار نے ونی کے رواج کو متعدد وجوہات کی بنا پر چیلنج کیا تھا۔درخواست کے مطابق تنازعات کے حل کے لئے جرگوں یا پنچایت میں دی جانے والی یہ سزائیں،خواتین یا کمسن لڑکیوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔

درخواست گزار نے کہا کہ جرگہ یا پنچایت’بدلِ صلح‘ کے تصور کو غلط سمجھتے ہیں اور یہاں مسئلے کو حل کرنے کے لئے تلافی کے طور پر کم عمر لڑکیاں متاثرہ خاندان کے حوالے کر دی جاتی ہیں۔درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ اس رواج کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔حالانکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کو کبھی مرد سے کم تر نہیں سمجھا گیا۔جہاں مرد کو تعلیم کا حق ہے حاصل ہے وہیں عورت کو بھی ہے۔

گوکہ عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہے لیکن پھر بھی اسے وہ عزت اور مقام حاصل نہیں ہے۔آج کے دور میں بھی ہمارے ہاں عورتوں کو ونی کر دیا جاتا ہے۔
ونی ایک ایسی رسم ہے جس میں اگر کوئی شخص کسی کا قتل کر دے تو وہ اپنا قتل معاف کروانے کیلئے اپنی بہن یا بیٹی کو ونی کر دیتا ہے۔یہ رسم اُن علاقوں میں موجود ہے جہاں تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔

اسلام میں کہیں ایسا حکم نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی قانون ہے۔آج بھی عورتیں اپنے بھائی اور باپ کی غلطیوں پر قربان کی جا رہی ہیں۔حکومت کو اس فرسودہ رسومات کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں جہاں ایک طرف انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دور افتادہ علاقوں سے معیشت اور کاروبار کی باتیں کی جا رہی ہیں تو وہاں جنوبی پنجاب کی بیٹیاں آج بھی ونی یا سوارہ جیسی فرسودہ رسومات کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔

قانون تعزیرات پاکستان کی شق 310 اے کے تحت ونی ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا تین سے دس سال مقرر ہے۔مگر بدقسمتی سے جنوبی پنجاب میں ونی جیسی فرسودہ رسومات کے تحت بے دردی سے کم عمر لڑکیوں کو جسمانی حوس کا نشانہ بنا کر ان کی زندگیاں تباہ کی جا رہی ہیں اور قانون اور عوام کے رکھوالے دونوں خواب خرگوش کے مزے اُڑا رہے ہیں۔
پاکستان میں جرگہ یا پنچایت کی طرف سے صدیوں سے رائج سوارہ یا ونی ایک فرسودہ رسم ہے،جس کے مطابق دو خاندانوں یا قبیلوں میں لڑائی جھگڑے یا قتل کے بدلے صلح کی خاطر رقوم،جائیداد نہ ہونے کی صورت میں بطور جرمانہ لڑکیوں کو متاثرہ فرد یا خاندان کو دے دیا جاتا ہے،پھر اس خاندان کی مرضی وہ ان لڑکیوں سے جو سلوک کرے۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے اندر کمزور عدالتی نظام اور انصاف کا حصول ناممکن ہونے کی وجہ سے لوگ عدالتوں کی بجائے ان جرگوں یا پنچایت کو ترجیح دیتے ہیں جس میں انہیں انصاف فوری اور مرضی کا مل جاتا ہے۔ونی کی بھینٹ چڑھنے والی بچیاں زیادہ تر کم عمر ہی ہوتی ہیں جن کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔دراصل ان غریب والدین کے پاس نقصان پورا کرنے کے لئے نقد رقم نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ اپنی بچیوں کو ونی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔

بعض اوقات تو پیٹ میں پرورش پانے والی بچی کو بھی ونی کر دیا جاتا ہے۔جبکہ بعض کیسز میں والدین نہیں چاہتے کہ ان کی بچیاں ونی کر دی جائیں لیکن جرگے کے بے جا دباؤ کے پیش نظر متاثرین جرگہ خاموشی سے جرم کے دلدل میں کودنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اکثر کیسز میں تو ونی قرار دی گئی لڑکیاں جنسی تسکین کیلئے بڑی عمر کے مردوں سے بیاہ دی جاتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Khawateen Aur Hamara Muashra is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 November 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.