
پاکستان میں تعلیمِ نسواں کو کیسے فروغ دیا جائے……؟
دنیاوی تعلیم اس وقت تک مفید ثابت نہیں ہوسکتی جب تک اس سے دینی تعلیم بھی نہ ملائی جائے۔ دینی تعلیم کے بغیر دنیوی تعلیم ناقص اور غیر سود ہے
رحمت اللہ شیخ منگل 22 جنوری 2019

(جاری ہے)
دینی تعلیم کے بغیر دنیوی تعلیم ناقص اور غیر سود ہے۔
پاکستان میں خواتین کی تعلیم سے دوری کی کئی وجوہات ہیں۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں بنسبت اسکول کے خواتین کی شرح انتہائی کم پائی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے ہرانسمینٹ کیسز کی وجہ سے اکثر والدین کو اپنی بیٹیوں کی تعلیم سے زیادہ ان کی عفت اور آبرو کی فکر ہوتی ہے۔ والدین اس خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کہ کہیں ان کی بیٹیوں کی عصمت اور پاکیزگی پر کوئی الزام نہ آجائے۔ مخلوط تعلیمی نظام بھی تعلیمِ نسواں کو فروغ دینے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مذکورہ نظام کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں مغربی کلچر تیزی کے ساتھ عام ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کا مستقبل خطرے میں ہے۔ ملک میں بڑھتا ہوا گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کلچر اسی نظام کی مرہونِ منت ہے ۔ ایسے اداروں میں بچے سدھرنے کی بجائے بگڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح معاشی مسائل کی وجہ سے بھی تعلیمِ نسواں تعطل کاشکار ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے ایک غریب سارا دن محنت، مزدوری کرنے کے باوجود اپنے گھر کا خرچہ پورا نہیں کرسکتا تووہ اپنی بیٹی کوتعلیم دلانے کے لیے بڑی بڑی فیسیں کیسے برداشت کرسکتاہے۔ کئی بار بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کو اپنے خوابوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ دونوں کی فیس برداشت کرسکے۔ لہٰذا ایک بہن ، بھائی کے مستقبل کے لیے اپنی خوشیوں کی بلی چڑھادیتی ہے۔ بعض والدین یہ سوچتے ہیں کہ بیٹی تو ویسے بھی پرائے گھر کی مہمان ہے، ایک نہ ایک دن اسے یہ گھر چھوڑ کر جانا ہے، اس لیے وہ پڑھ لکھ کر کیا کرے گی…!؟ ان تمام مسائل کو حل کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ لوگوں میں تعلیمِ نسواں کی اہمیت کو اجاگر کرنا،غریب لوگوں کو مفت تعلیم دینا، بڑھتے ہوئے ہراسمینٹ کے واقعات کا سدِ باب کرنااور مخلوط تعلیمی نظام کو ختم کرنے سے ہی تعلیمِ نسواں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔دوسری صورت میں ایسے نظام کے ہوتے ہوئے نہ تو خواتین کی تعلیم کو عام کرنا ممکن ہے اور نہ ہی ایسی تعلیم کا کوئی فائدہ ہے۔ کیونکہ جب ایسی تعلیم کا نتیجہ سامنے آئے گا تو ہر کوئی کفِ افسوس ملتا ہوا یہی کہے گا کہ وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ ہم راہ پر تھے روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلامی حدود میں رہ کر خواتین کا تعلیم حاصل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔ اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مردوں اور عورتوں کے لیے الگ تعلیمی نظام مہیا کرے۔ کیونکہ اگر مقصد تعلیمِ نسواں ہے تو یہ تعلیم مخلوط نظام کے علاوہ بھی دی جاسکتی ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف اسلامی اصول کی خلاف ورزی سے بچا جاسکتا ہے بلکہ بآسانی تعلیمِ نسواں کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج ملک میں رائج مخلوط تعلیمی نظام اور اس کے بڑھتے ہوئے نقصانات کی وجہ سے خواتین کی ایک کثیر تعداد تعلیم جیسی عظیم دولت سے محروم ہے۔ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
راوی کی کہانی
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
مزید عنوان
pakistan mein taleem e niswan ko ksy frog dea jae? is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 January 2019 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.