مسلسل سیکھتے رہناایک لگن کا نام ہے جو ہمیں بہتری کی طرف گامزن کرتا ہے یہ ہماری زندگی میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لے کے آتا ہے اور امید دلاتا ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ایک بڑے کام کی طرف راستہ ہیں یہ واضح ثابت قدمی آپ کے اندر بہتری کا ایک بڑہ مقصد بناتی ہے پھر اس مقصد کے حصول کے لیے جارہانہ انداز اپنایا جاتا ہے تاکہ اپنا مقصد کم سے کم وقت میں حاصل کیا جا سکے۔
بعض اوقات ہم کامیاب ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ تا ہے لیکن یہ ناکامی ہار نہیں ہوتی بلکہ ناکامی نئے افکار اور نئی سوچ کی بنیاد رکھتی ہے۔ ہارتا انسان تب ہے جب اندر سے ہار جاتا ہے۔ہمیں اپنی زندگی میں مقصد بنانا پڑتا ہے اگر وہ مقصد ہمیں صاف دکھائی دے تو ہم اپنے رویے اور عادات کو اس کے تابع کر دیتے ہیں۔
(جاری ہے)
کوشش کرتے رہنا ہی زندگی ہے ،سیکھنا ہی زندگی ہے۔
قران پاک کی پہلی وحی بھی یہ ظاہر کرتی ہے "اپنے رب کے بابرکت نام سے پڑو جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا"۔ بچہ بچپن میں اوسطً تین سو سوال کرتا ہے جواب کی فکر نا کیے بغیرسوال کیے جاتا ہے اور نسبتاً بڑوں سے زیادہ سیکھتا ہے لیکن جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے تو سوال پوچھنا کم کرتا جاتا ہے کیونکہ وہ شرم محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے اور سیکھنے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔
مجھے لندن میں تعلیم کے سلسلے میں جانے کا اتفاق ہواتو وہ میرے لیے ایک بہت اچھا تجربہ رہا۔ وہاں کی پڑھائی اور ہماری تعلیم میں کافی فرق ہے وہاں ریسرچ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور ہمارے ملک میں ریسرچ زیادہ قابل غور چیز نہیں سمجھی جاتی۔ تو شروع میں مجھے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ ہم یہاں سلیبس کی کتب کو ہی زیادہ پڑھتے ہیں لیکن سیکھتے کم ہیں وہاں مجھے سیکھنے میں کافی مشکل پیش آئی اور کافی محنت کرنا پڑی لیکن میں نے کوشش کی اور کامیابی حاصل کی۔
شروع میں میرے ٹیچر مائیکل ڈیوڈ نے کہا کہ تم ریسرچ سے کافی دور ہو لیکن جب میں نے محنت کی اور کچھ عرصہ بعداسی ٹیچر نے کہا کہ فرمان میں تم میں بہت تبدیلی دیکھ رہا ہوں اور مجھے شاباش دی یہ سب میرے مسلسل سیکھنے کا نتیجہ تھا۔ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی بس مضبوط ارادے کی ضرورت ہوتی ہے جب ارادہ مضبوط ہو جاتا ہے تو ہماری نیت میں جستجو شامل ہو جاتی ہے جستجو تو انسان کو اللہ تعالی کی بابرکت ذات سے واقفیت کروا دیتی ہے۔
عموماً لوگ سیکھنے کی نیت کرتے ہیں مگر مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی صورت میں چھوڑ دیتے ہیں مگر انسان کی یہ جیت نہیں کہ اپنے ہی ارادوں سے ہار جائے بلکہ وہ یہ سوچے کہ کسی بھی ہار میں اسے مثبت رہنا ہے اور آئندہ کی جیت کے لیے سبق حاصل کرنا ہے اور ہار کی وجہ ڈھوڈنہ ہے اور دوبارہ اسی کام کو ایک نئے ولولہ اور جوش سے کرنا ہے اصل ہار چھوڑ دینا ہے سیکھنا چھوڑ دینا۔
یہ دنیا ہے اس میں مشکلات سب کو آتی ہیں کچھ نکھر جاتے ہیں اور کچھ بکھر جاتے ہیں۔ جیسے میں نے پہلے کہا ہمارے ملک میں ریسرچ کا تصور نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ جب ہمیں سیکھنا ہوتا ہے تو باہر کے ملکوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔باہر میں دیکھتا تھا کہ چھوٹی جماعت کے بچوں کوان کے اساتذہ باہر پبلک پلیسز پر لے جاتے اور ان کے ہاتھ میں کاغذ اور قلم تھما دیتے اور ان کو مرضی کا ٹاپک پسند کرنے کو کہتے اور اس پر لکھنے اور کام کرنے کو کہتے اور اس طرح وہ پیپر ان کا ریسرچ پیپر بن جاتا یوں ان کو ریسرچ کی عادت ڈھل جاتی۔
ہمارے ملک میں اس روش کو اپنانا ناگزیر ہے۔
حضورﷺ سے کسی نے پوچھا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے "آپ نے فرمایا جو مسلسل دوسروں سے سیکھتا رہتا ہے عالم ہمیشہ علم کا بھوکا رہتا ہے" مسلسل کوشش اور سیکھتے رہنے سے کسی دن انسان ایسا کام سرانجام دے دیتا ہے جس سے انسانیت کی خدمت کی جا سکتی ہو جسکی مثال موجودہ زمانے کی ایجادات ہیں جن میں ہوائی جہاز، ریل گاڑی، بجلی، گیس، الیکٹرانک اشیا اور دیگر ایسے وسائل ہیں جو ہماری زندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔
بعض اوقات ہم اس لیے سیکھتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی میں کوئی حدف مقرر کر لیتے ہیں اور اس حدف کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں آخر میں ہم اس حدف کو پانے میں ناکام ہو جاتے ہیں جو کہ ایک مخصوص نشست ہو سکتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو ہم نے سیکھا وہ ضائع چلا گیا ناکامی تب ضائع جاتی ہے جب ہم اس سے کچھ سیکھتے نہیں اسکی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ طلباء کا زیادہ ہدف ڈاکٹریا انجینئر بننا ہوتا ہے اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائیں تو ٹھیک ورنہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ناکام ہو گئے حالانکہ ایسا نہیں ہے ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ ان کامیاب ڈاکٹرز اور انجینئرز کو پڑھانے والے اساتذہ بن جائیں اور استاد کی عزت اور مقام ڈاکٹر اور انجینئر سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اس کے علاوہ اس ہمارے معاشرے کو صرف ڈاکٹر یا انجینئر کی ہی تو ضرورت نہیں ہوتی۔
بیس بال کھیل کی تاریخ دیکھیں تو امریکن کھلاڑی جو دی میگیو کے نام کے بغیر نا مکمل ہے اس نے سب سے بہترین کھلاڑی کا ٹائٹل اپنے نام تین دفعہ کیااس نے مسلسل 56 میچز میں زیادہ مرتبہ ہٹ کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا اس نے کیسے اپنی قابلیت کو بڑھایا اس کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ایک جرنلسٹ دی میگیو کا انٹرویو کرنے اسکے گھر گیا دوران انٹرویو جرنلسٹ نے سوال کیا کہ آپ اپنے آپ کو ایک قدرتی ہٹر سمجھ کر کیسا محسوس کر رہے ہیں دی میگیو نے جرنلسٹ کا ہاتھ پکڑا اور نیچے گراونڈ میں لے گیااور پریکٹس شروع کر دی کافی دیر تک پریکٹس کرنے کے بعد اس نے جرنلسٹ سے کہا کہ اب بھی وہ اس کو ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک قدرتی ہٹر ہے مطلب اس کے کہنے کا یہ ہوا کہ سیکھنے انسان سلطان بنتا ہے اور قدرت بھی اس پر مہربان ہوتی ہے جو خود کو اس کے مطابق ڈھالتا ہے۔
اقبال فرماتے ہیں
تو شب اَفریدی چراغ اَفریدم
سفال اَفریدی ایاغ اَفریدم
بیابان و کوہسارو راغ اَفریدی
خیابان و گلزارو باغ اَفریدم
من اَنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من اَنم کہ از اھر نو شینہ سازم
ترجمہ: اے خدا تو نے رات بنائی میں نے لیمپ، تو نے مٹی بنائی میں نے گلدان، تو نے جنگل، پہاڑ اور صحرا بنائے، میں نے باغ، باغیچہ اور پھولوں کی کھیتی بنائی، یہ میں ہوں جس نے پتھر سے شیشہ بنایا، یہ میں ہوں جس نے زہر سے امرت بنایا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔