تعلیم امتحان پاس کرنے کا نام نہیں!

قارئین، اس سال بھی جب بچوں کا امتحان شروع ہوا تو ایک شخص نے مجھے فون کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کے بچے کے لئے اول جماعت کے سارے پرچے اپنے سکول سے لے آؤ

Muhammad Hussain Azad محمد حسین آزاد بدھ 1 مئی 2019

Taleem Imtehan Pass Karne Ka Naam Nahi
مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی یہاں پر امتحانات کا سیزن شروع ہوجاتا ہے۔دراصل یہاں سردی کی وجہ سے چوبیس دسمبر سے یکم مارچ تک سوا دو مہینے  چھٹیاں ہو جاتی ہے۔اور چٹھیوں میں اکثر گورنمنٹ سکولوں کے طلبہ بلکل اپنی کتابوں سے لاعلم ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ سکولوں کی تعلیم کی کوئی قیمت نہیں۔ ان کے والدین بھی ان سے غافل ہوتے ہیں اور اپنے بچوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔


گزشتہ سال ایک شخص ہمارے سکول آیا اور شکايت کی کہ اس کا بچہ کسی نے داخل کیا ہے؟  ”پوچھیں بغیر آپ کسی کے بچے کو کیسے داخل کر سکتے ہیں؟“۔ ہم نے انہیں بتایا کہ اس کا بیٹا بہت ذہین ہے اور اس نے کلاس میں دوسری پوزیشن بھی لی ہے۔ ہم نے سوچھا شاید وہ پوزیشن کا سن کر خوش ہو جائے گے لیکن وہ اور بھی غصہ ہوئے اور کہا کہ اسے پوزیشن کی ضرورت نہیں، اپنے بچے کی مستقبل کی فکر ہے۔

(جاری ہے)

اس نے وہ بچہ دوسری سکول میں شفٹ کراکر دوباره کے جی میں داخل کرایا اور ہمیں بتادیا کہ اگر آپ لوگوں کے بچوں کی مستقبل سے نہیں کھیلنا چاہتے تو مہربانی کریں ایسے چھوٹے چھوٹے بچوں داخل مت کریں۔ جب داخل کرتے ہیں تو ان کے کسی بزرگ سے ضرور پوچھ لیا کریں۔
قارئین، اسی ہی سال کئی اور بچوں کو پاس کرنے کے لئے ان کے والدین نے  بہت سفارشیں کی ۔

دوسری اور تیسری جماعت کے ایسے بچوں کی سفارشیں کی گئی جو اپنے نام بھی نہیں لکھ سکتے تھے۔ اس کی بھی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ وقت سے پہلے داخل کرائے تھے۔ لیکن مجھے تعجب اس بات پر ہوئی کہ ایک شخص نے مجھے دوبئی سے فون کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بچے کو ضرور پاس کرنا۔ دراصل اس کا بچہ بھی ہمارے استاد محترم نے ان سے پوچھے بغیر داخل کیا تھا۔ ان کو پتہ بھی نہ تھا۔

لیکن جب انہیں  پتہ چلا تو وہ اس بات پر بضد ہوئے کہ اس بچے کو کسی بھی صورت پاس کرنا ہے۔ اس نے مجھے مجبور کیا اور میں نے اپنی پیشہ ورانہ کیئریر میں یہ پہلی اور سب سے بڑی غلطی کر ڈالی۔ میں سوچتا ہوں  کہ جس بچے کو میں نے پاس کیا ، اس کے باپ کے ساتھ ساتھ میں بھی اس کے مستقبل کے ساتھ کھیل گیا۔ وہ بڑا ہو کر اپنے باپ کو نہیں، مجھے بد دعا دے گا۔

نتیجہ کے دن پر تو وہ بہت خوش تھا، اس کے والدین بھی بہت خوش تھے۔ باپ نے بیٹے کی کامیابی کی خوشی میں اپنے دوستوں کے لئے پارٹیاں کی، والدہ نے شکرانے کے نوافل پڑھیں اور گھروں میں مٹھائیاں تقسیم کی۔ انہوں نے اتنی خوشی اس لیے منائی کہ ان کا بیٹا کچھ ہی مہینوں میں پاس ہوکر جماعت اول میں گیا۔ ان کے لئے یہ بہت بڑی خوشی کی بات تھی اور ان کا خیال تھا کہ ان کا بچہ اب پندرہ سال میں ماسٹر کرے گا اور انہیں ایک سال پہلے نوکری مل جائے گی۔

یا نو سال میں میٹرک پاس کرے گا اور بہت جلد یہ ان کو دوبئی یا کسی دوسرے ملک میں کام کے لئے بھیج دیں گے۔لیکن یہ بہت نادان لوگوں کی سوچ ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو یہ بچہ نو تو کیا، پندرہ سال میں بھی میٹرک نہیں کر پائے گا۔ لیکن ہم اپنی غلطی کی کفاره ادا کرنے کے لئے اس بچے پر خصوصی توجہ دیں گے اور اس کے اور اس جیسے دوسرے بچوں کی مستقبل سے نہیں کھیلیں گے چاہے ان والدین ناراض ہوجائیں یا خودکشی کریں۔


قارئین، اس سال بھی جب بچوں کا امتحان شروع ہوا تو ایک شخص نے مجھے فون کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کے بچے کے لئے اول جماعت کے سارے پرچے اپنے سکول سے لے آؤ تاکہ وہ سب سوالات انہیں گھر میں حل کرائیں اور ان کا بچہ پاس ہو جائے۔ ان کا بچہ جماعت اول میں پڑھ رہا ہے اور  ذہنی طور پر بہت ڈسٹرب ہے۔وہ  ایک غیر ذمہ دار شخص ہے لیکن بس اپنے بچے کو پاس کروانا ان کو کامیابی دکھائی دیتی ہے۔

مجھے ان کی باتیں سنتے ہوئے حیرت بھی ہوئی کہ یہ کیسا انسان ہے جو بچپن سے اپنے بچے کی ایسی ذہن سازی  کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیئے کہ پہلے اپنے بچوں کی نفسیاتی علاج کرائیں، اور ان کی نفسیات پر خصوصی توجہ دیں۔ تعلیم کرنا اور پاس ہونا بعد کی باتیں ہیں۔
قارئین! تعلیم امتحان پاس کرنے کا نام نہیں۔ تعلیم انسان کو زندگی گزارنے کے طریقے سیکھاتے ہیں کہ کیسے اچھی زندگی گزاری جائے۔

لہذا یہ ضروری نہیں کہ آپ کا بچہ بیس سال کی عمر سے پہلے ماسٹر کرے۔ ضروری یہ ہے کہ اس نے سکول یا کالجز میں ایسا کچھ سیکھ لیا ہے جیسے دوسرے لوگ دیکھ کر انہیں مہذب اور سلیقہ مند دکھائی دیں۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ کے بچے کا ذہن جتنا پختہ ہوگا وہ اتنا ہی اچھی کارکردگی دیکھائے گا۔ لہذا سب لوگوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ اساتذہ سے سفارشیں کرنے کی بجائے اپنے بچوں کی پڑھائی پر توجہ دیں۔ پھر کسی کی سفارشیں نہیں کرنی پڑے گی۔ اور اساتذہ سے درخواست ہے کہ بہت چھوٹے  چھوٹے اور کمزور بچوں کو اتنی جلدی داخل مت کرائیں ورنہ پھر وہ اپنے والدین کو نہیں، آپ کو بد دعائیں دیں گے۔ کیونکہ وہ ان پڑھ اور آپ تعلیم یافتہ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Taleem Imtehan Pass Karne Ka Naam Nahi is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 May 2019 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.