عمران خان کے نام کھلا خط

جمعہ 26 ستمبر 2014

Abdul Quddoos Muhammadi

عبدالقدوس محمدی

عزت مآب جناب عمران خان! میں کچھ دنوں سے جس کسی سے بھی ملا اسے آپ کے بارے میں فکر مند پایا اور مختلف حلقوں میں آپ کے بارے میں جن امور پر فکر مندی اور تشویش پائی جاتی ہے ان میں سے ایک اہم ترین دینی ،ملی اور قومی معاملے میں چند گزارشارت پیش کرنے کے لیے آپ سے ملاقات کی کوشش کی لیکن آپ تک رسائی ممکن نہ پائی اس لیے قوم کے درد دل رکھنے والے افراد خاص طور پر قوم کے نوجوانوں کی خاموش اکثریت کے جذبات واحساسات کو آپ تک پہنچانے کے لیے اس خط کا سہارا لیا جارہا ہے اور چونکہ یہ معاملہ ایسا ہے جو قومی اور دینی نوعیت کا ہے اس لیے اس خط کو ”کھلاخط “قرار دیا تاکہ اس معاملے سے پوری قوم کو آگاہ کیا جاسکے ۔


بات آگے بڑھانے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس خط کا تعلق کسی قسم کی سیاست ،احتجاج یا پارٹی بازی سے نہیں بلکہ سیاست اور دیگر امور اور تنازعات آپ جانیں اور متعلقہ فریق جانیں ہم نے محض ایک خالصتاً دینی ،ایمانی اور اعتقادی مسئلے کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانی ہے جس کو آپ نے بھی ہر قسم کی سیاست سے بالاتر ہو کر ٹھنڈے دل ودماغ سے ا س پر غور کرنا ہے۔

(جاری ہے)


دوسری وضاحت یہ کہ جب بھی ختم نبوت یا قادیانیت اور آپ کے مسئلے پر بات ہوتی ہے توآپ کے نام نہاد ترجمان اس کو کھینچ تان کر کفر کے فتووں اور آپ کو قادیانی قرار دینے کی طرف لے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ کسی مکتب فکر کے کسی مفتی نے کبھی بھی آپ پر نہ تو کفر کا فتوی لگایا اور نہ ہی آپ کو قادیانی قرار دیا اور نہ ہی کوئی ایسا کر سکتا ہے اگر کوئی ایسا کرے گا تو آپ اور آپ کے وکلاء سے زیادہ ہم آپ کی حمایت اور وکالت کریں گے ۔

مسئلہ آپ کے قادیانی ہونے کا نہیں مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم نہیں چاہتی کہ آپ کو کندھا اسلام اور پاکستان کی دشمن کوئی بھی قوت استعمال کرے ۔
آپ نے جب سے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو عرصے سے باریاں لگاتے سیاستدانوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام کو امید کی کرن نظر آئی ،لوگوں نے آپ سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیں ، آپ نے انصاف کی دہائی دی ،تبدیلی کا نعرہ لگایا ،میرٹ کو رواج دینے کا دعوی کیا ،وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی بات کی،انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کی روک تھام کے عزم اظہار کیا ،غریب آدمی کو اس کی دہلیز پر انصاف دلانے کا وعدہ کیا تو آپ بہت سے لوگوں کی امیدوں کا مرکز بن گئے ،لوگوں نے آپ سے ڈھیر ساری توقعات وابستہ کر لیں اس دوران سیاسی طور پر ،حکمت عملی کے تعین،رفقائے سفر کے انتخاب،شرم وحیاء سے عاری کلچر متعارف کروانے ،ناچ گانے کو رواج دینے ، پارٹی انتخابات ،مالی بے قاعدگیوں ،خیبر پختونخواہ حکومت کی ناقص کارکردگی سمیت بے شمار ایسے امور ہیں جنہیں زیر بحث لایا جا سکتا ہے لیکن ہم آج بھی آپ اور آپ کے پیروکاروں کے سارے دعووٴں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں اور ان میں سے کسی بھی معاملے پر بات کرنے کی بجائے جو اس خط کا حقیقی مقصد ہے اس کی طر ف آتے ہیں ۔


جناب عمران خان صاحب ! آپ نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جب اس بات کا اعلان کیا کہ ”آپ اپنی حکومت کے دوران نواز شریف کی طرح اپنے سمدھی اسحاق ڈار جیسے لوگوں کو وزیر خزانہ نہیں بنائیں گے بلکہ امریکا کی پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر اور دنیا کے ٹاپ اکانومسٹ میاں عاطف کو امریکا سے واپس لا کر وزیر خزانہ بنائیں گے“پھر آپ نے عاطف میاں کے بارے میں تعریفیں کرتے ہوئے زمین آسمان کے قلابے ملائے تو پاکستانی قوم نے پہلے پہل تو یہ سمجھا کہ میاں عاطف، شوکت عزیز یا معین قریشی قبیل کی کوئی ذات شریف ہوں گے اور امریکا کی طرف سے اس قسم کے شوکت عزیز اور معین قریشی عموما شیروانیاں سلوا کر تیار بیٹھے ہوتے ہیں جب بھی پاکستان میں اقتدار کی کوئی فصل پکنے پر آتی ہے تو کالی بریف کیس لے کر آتے ہیں ایوان اقتدار میں گھس بیٹھتے ہیں پھر اپنا دور پورا کر کے بھرے بریف کیسوں کے ساتھ واپس لوٹ جاتے ہیں البتہ یہ سوال اپنی جگہ باقی رہا کہ آپ نے اپنی کابینہ کے اکلوتے وزیر کا اعلان کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی اور دنیا بھر میں کسی اور شعبے کے کسی ماہر پر آپ کی نظر انتخاب کیوں نہ پڑی ؟اسی اثناء میں اس وقت سب کا ماتھا ٹھنکا جب آپ کے اس اعلان پر قادیانیت کی دنیا میں خوشی سے بغلیں بجائی جانے لگیں اور قادیانیوں نے اپنی ویب سائٹ ”دی ربوہ ٹائم ڈاٹ نٹ “پر آپ کے اس اعلان کو بہت نمایاں انداز سے آویزاں کیا بلکہ میاں عاطف کا مکمل تعارف بھی پیش کر دیا کہ میاں عاطف قادیانی کمیونٹی کے ایک انتہائی متحرک اور فعال فرد ہیں ۔

(اگرچہ بعد ازاں اس ویب سائٹ کو بند کر کے اس سے یہ اعلانات وتفصیلات حذف بھی کی گئیں جو اس معاملے کو مزید مشکوک بنانے کے لیے کافی ہے)
جناب عمران خان صاحب !میاں عاطف کے بارے میں اس بات پر تو یقین نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے حالات زندگی سے آپ کے سامنے نہ ہو یا آپ اس کی اہلیت وصلاحیت اور ماضی وحال سے اچھی طرح واقف نہ ہوں ۔اگر آپ اس کے بارے میں واقف نہیں تو بھی یہ حیر ت انگیز بات ہے کہ محض سنائی باتوں کی بنیاد پر آپ جو حکومت تشکیل دیں گے وہ پاکستان کا کیا حشر کرے گی اور اگر آپ عاطف میاں کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں اور یقینا جانتے ہیں تبھی آپ نے برسوں سے ہر قسم کی وفادار ی کا ثبوت دینے ، مسلسل آپ کی ہاں میں ہاں ملانے ،دھرنے کے لیے بندے لانے ، فنڈز جمع کرنے والے اور رت جگے کاٹنے والے کسی” عبقری شخص“ کی وزارت کے قلمدان کا اعلان کرنا ضروری نہیں سمجھا صرف عاطف میاں کو ہی یہ اعزاز کیوں عطا فرمانا لازمی جانا؟لیکن چلیں ایک منٹ کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ آپ کو اس بارے میں بالکل معلوم نہیں تھا لیکن جب آپ کو معلوم ہوگیا تھا کہ عاطف میاں کا تعلق اسلام اور پاکستان کے اس باغی گروہ کے ساتھ ہے جس نے ہمیشہ پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کردار ادا کیاتو اس وقت تو آپ کی طرف سے وضاحت آجانی چاہیے تھی کہ آپ ایک مرتبہ پھر پاکستان کی بحرانوں اور مسائل کے بھنور میں پھنسی کشتی کو پار لگانے کے لیے ان قادیانیوں کا سہارا لینے پر کیوں مجبور ہیں جو اکھنڈ بھارت یعنی متحدہ ہندوستان کو اپنے عقید ے کا حصہ سمجھتے ہیں ۔

پاکستان کے وجود سے انکاری اور اس کی بقا ء کے ہی منکر ہیں اورجن کی عقید ت ومحبت کا مرکز قادیان ہندوستان میں ہے ۔
جناب عمران خان صاحب ! آپ نے جب ایک قادیانی کو وزیر خزانہ بنانے کا اعلان کیا تو اس پر ملک بھر میں دردِدل رکھنے والوں اور پاکستان کے مستقبل اور بقاء کے لیے فکر مند حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ قادیانیوں کے معاملے میں آپ سے ہی ”اتفاقیہ “ طور پر اتنی بڑی بڑی غلطیاں آخر کیونکر سرزد ہورہی ہیں ؟ یہ تو آپ کو یاد ہی ہو گا کہ جب نادیہ رمضان نے کیمرے کے سامنے قادیانیوں کے سربراہ مرز ا مسرور سے آپ کی حمایت کی درخواست کی تو مرزا مسرور نے خود اپنی زبان سے کہا جس کی ویڈیوز موجود ہیں کہ” آپ جس وقت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھ رہے تھے اس وقت مرزا مسرور پاکستان میں تھا اور وہ جماعت احمدیہ پاکستان کا سربراہ تھا آپ نے اس کے پاس ایک صاحب کوحمایت کی بھیک مانگنے کے لیے بھیجا اور اس نے آپ کو ”کچھ “کر دکھانے کی شرط پر آپ کی حمایت پرآمادگی ظاہر کی ۔

سوال یہ ہے مرزا مسرور جس دور کی بات کر رہا ہے اس دور میں آپ نے قادیانیوں کے علاوہ پاکستان میں بسنے والی اور کون کون سی ایسی کمیونٹی ہے جس کے پاس اپنے نمائندہ وفود بھیجے ہوں؟ اس عنایت کے مستحق صرف قادیانی ہی کیوں ٹھہرے ؟
آپ کو جب صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت ملی تو آپ نے عبداللطیف نامی ایک شخص کو اٹارنی جنرل بناکر ”کچھ “ کر دکھانے کی کوشش کی،کیا پورے صوبہ خیبر پختونخواہ میں قادیانی پسِ منظر رکھنے والے عبدللطیف کے علاوہ اور کوئی ماہرِ قانون نہیں مل پایا تھا کہ اس شخص کا انتخاب کیا گیا ؟پھر اس کے بعد مجھے اس بات کی زیادہ خبر تو نہیں کہ خیبر پختونخواہ میں اور کون کون سے قادیانی کن کن اہم عہدوں پر لا کر بٹھائے گئے اور کن کن پردہ نشینوں کے کہنے پر نصاب میں تبدیلی کی گئی ۔

جب سردار مہتاب احمد عباسی کو گورنر بنایا گیا تو ان کی وجہ سے خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخابات کے ٹکٹ کے تقسیم کے موقع پر پیراشوٹ کے ذریعے عمر اصغر خان کے بھائی اور اصغر خان کے بیٹے علی اصغر خان کا انتخاب کیا گیا ۔علی اصغر خان کے بارے میں قطعا وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ قادیانی ہیں لیکن بہرحال قادیانیت عمراصغر خان اور علی اصغر خان کے تذکرے کے ساتھ زیر بحث ضرور آتی ہے ۔

آپ نے اس معاملے میں نذیر عباسی جیسے ہر دلعزیز ورکر کو مجبور کیا ،سردار مبین کو بائی پاس کیا ،عبدالرحمن عباسی کو نظر انداز کیا اور سب کو یہ کہہ کر زبردستی علی اصغر خان کو ٹکٹ دلایا کہ آپ انہیں کوئی ”اہم ذمہ داری“سونپنا چاہتے ہیں اور پہاڑوں کے بچے بچے کی زبان پر تھا کہ آپ پرویز خٹک کی جگہ علی اصغر خان کو وزارت علیا ء کے منصب پر فائز کرناچاہتے ہیں ۔

پہاڑی اور سیدھے سادے لوگ آپ کی اس پالیسی کو بالکل نہیں سمجھ پائے کہ آخر آپ علی اصغر خان کے لیے اس حد تک اصرار کیوں فرما رہے ہیں ؟خیبر پختونخواہ کے معاملے میں بھی آپ کا یہ طرز عمل رہا اور اب جب آپ نیا پاکستان بنانے نکلے ہیں تو اس کے خزانے پر عاطف میاں کی شکل میں آستین کا سانپ بٹھادینے کا اعلان فرما رہے ہیں ؟ فیاللعجب
کیا آپ کو خبر نہیں کہ مفکر پاکستان علامہ اقبال نے قادیانیوں کو غدارِ ملت اور غدارِ وطن قرار دیا ؟کیا آپ نہیں جانتے کہ پراناپاکستان بنانے والے قائد اعظم نے اس مملکت خداداد کے پہلے وزیرخارجہ کے طور پر ظفر اللہ خان قادیانی کا انتخاب کیا،انہوں نے اپنی طرف سے ظفر اللہ خان کی صلاحیتوں اور ذہانت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ فرمایاتھالیکن ظفر اللہ نے خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی ایسی ٹیڑھی رکھی کہ آج تک وہ گتھی سلجھائی ہی نہ جا سکی۔

ظفر اللہ خان نے دنیا بھر کے سفارت خانوں اور وزارت خارجہ کی جملہ کلیدی اسامیوں پر قادیانیوں کو ایسی منصوبہ بندی کے ساتھ بٹھایاکہ پون صدی کے قریب عرصہ ہونے کو آیا ہے اور آج تک ظفر اللہ خان کی ”باقیات“ کی وزارت خارجہ اور پاکستانی سفارت خانوں سے” تطہیر“ نہیں ہو پائی اور پھر یہی وہ ظفر اللہ خان تھا جس نے قائد اعظم کی جنازہ پڑھنے سے اس لیے انکار کردیا تھا کہ” وہ ایک کافر ملک کا مسلمان وزیر خارجہ ہے یا ایک مسلمان ملک کا کافر وزیر خارجہ“ہم آپ کی لمبی زندگی کے لیے دعا گو ہیں لیکن احتیاطااس خط کے ذریعے آپ کو بَروقت اس لیے خبردار کرناضروری سمجھتے ہیں کہ حقیقی قائداعظم کے ساتھ ان کے وزیر خارجہ نے جو کیا کہیں ”قائداعظم ثانی“ کا” وزیر خزانہ“ اس تاریخ کو دہرا نہ دے ۔


جناب عمران خان !کیا آپ نہیں جانتے کہ ایم ایم احمد نے پاکستان کو دولخت کرنے میں اور 1971ء کے المناک مرحلے پر کس کس انداز سے پاکستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپے ؟ اگر آپ کو خود معلوم نہیں تو پاکستان کے ایٹم بم کی داستان کو تاریخ کے سینے میں محفوظ کرنے والے زاہد ملک سے معلوم کر لیجیے کہ پاکستانی وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو امریکا میں پاکستانی ایٹم بم کے بارے میں ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کی چرائی گئی معلومات و تفصیلات دکھا کر کس طرح ورطہ حیرت میں مبتلا ء کر دیا گیا تھا ؟اس جیسے اور بھی بے شمار تاریخی حقائق ہیں جو آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں اس کے باوجود آپ نئے پاکستان کے خزانے پر ایک قادیانی آستین کے سانپ کو بٹھانے کا اعلان کریں تو پھر آپ کی حالت قابل رحم ہی معلوم ہوتی ہے ۔


آپ سے زیادہ یہود ونصاری ٰ کے مزاج،سازشوں ،ریشہ دوانیوں اور منصوبہ بندی سے کون واقف ہو گا ؟کیا آپ کو اس بات کی خبر نہیں ہے کہ یہود ونصاریٰ کس طرح کبھی نوبل انعام کی ریوڑیاں بانٹ کر،کبھی مصنوعی ہوا بھر کے اور گاہے طویل منصوبہ بندی کے بعد اپنے مُہرے تیار کرتے اور پھر انہیں کبھی ایٹمی پروگرام میں ،کبھی وزارت خارجہ میں ،کبھی بیورو کریسی میں اور کبھی خزانے پر لابٹھاتے ہیں اور کبھی انہیں جھوٹے خواب بیچنے اور سبز باغ دکھانے کے کام پر لگا کر قوم کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ؟ اس لیے عاطف میاں کی صلاحیتوں پر بھی آنکھیں بند کر کے یقین کر لینادرست نہیں کیا خبر کہ اصل کہانی کیا ہو؟
جناب عمران خان صاحب !قادیانیت نوازی سے ملتا جلتا ایک اور انتہائی اہم معاملہ ہے جو اسی معاملے سے مناسبت ومطابقت رکھتا ہے اس کا ذکر بھی یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے ۔

وہ معاملہ یہ ہے کہ عاطف میاں کے معاملے کی گر د ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ مہدی ہونے کا دعویدار، کبھی حجر اسود اور کبھی چاند پر اپنی شبیہ کی موجودگی کے خبط میں مبتلاء آنجہانی ریاض احمد گوہر شاہی کی باقیات نے بھی آپ پر اپنا ”حق“ جتلانا شروع کر دیا ۔اس وقت سوشل میڈیا جس پر آپ کی پوری فوج ظفر موج موجود ہے اس میں مہدی فاوٴنڈیشن کے یونس الگوہر کی کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں وہ آپ کی حمایت اور پشت پناہی کی ڈینگیں بھی مارتا دکھائی دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی دیدہ دلیر ی اور ہرزہ سرائی کا یہ عالم ہے کہ وہ العیاذ باللہ شعائر ِاسلام کی کھلم کھلا توہین کا مرتکب ہوتا ہے ،وہ دینِ اسلام کے بنیادی ستون حج بیت اللہ اور بیت اللہ شریف کے بارے میں ایسی ایسی گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے کہ دل میں ذرہ برابر ایمان ،زندہ ضمیر اور فطرت سلیمہ کا حامل کوئی بھی شخص اس کی خرافات وبکواسات کو کسی طور پر نہ سننے کی ہمت رکھتا ہے اور نہ برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔


جناب عمران خان صاحب ! ممکن ہے کہ ہم بھی یہ سوچ کر کہ نہ آ پ کی حکومت آنی ہے اور نہ ہی عاطف میاں نے وزیر خزانہ بننا ہے اس معاملے میں خاموش ہو رہتے لیکن ایک معاملے کی وجہ سے یہ ساری رام کہانی آپ کے گوش گزار کرنے پر مجبور ہوئے اور وہ معاملہ یہ ہے کہ اس مسئلے کاا نتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عمران خان کے حامیوں کی اکثریت اس نسلِ نو پر مشتمل ہے جو پاکستان کی تاریخ سے نابلد ہے ۔

جو قادیانی فتنے کی سنگینی سے آگاہ نہیں ،جن کے سامنے 1953 ء اور 1974ء کی تحریکیں نہیں چلیں ۔وہ نسلِ نو نہ تو قادیانیوں کے بارے میں شرعی اور اسلامی تعلیمات اور ہدایات سے واقفیت رکھتی ہے ،نہ اسے قادیانیوں اور دوسرے غیر مسلموں کے مابین فرق معلوم ہے ،نہ وہ مرتد وزندیق اور غیر مسلم کی اصطلاحات سے آگاہ ہیں ،نہ انہیں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کی خبر ہے ۔

ایسے میں وہ قادیانیت کے مسئلے میں جب عمران خان کی وکالت کرنے پر اتر آتے ہیں تو اکثر اوقات وہ اپنی اوقات کا اظہارہی کرتے ہیں ، دینی تقاضوں کو پامال کر دیتے ہیں ،کبھی مقام ِرسالت کی باریکیوں کا لحاظ نہیں کرتے اور کبھی وہ ایسی ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے انسان ڈر جاتا ہے کہ یہ نادان بچے بچیاں دوسروں کی دنیا بچانے کے لیے کس ڈھٹائی کے ساتھ اپنی آخرت کو داوٴ پر لگانے کے لیے آمادہ ہیں ۔

اس لیے عمران خان !پلیز! قوم کے ان بچوں بچیوں کے حال پر ہی رحم فرما دیں جنہیں آپ کے نئے جلسے اور دھرنے کلچر نے فحاشی، عریانی اور بے حیائی کی لَت ڈالنے میں توکوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اب آپ انہیں ایمان اور عقیدے کے معاملے میں تو کسی آزمائش میں نہ ڈالئے کیوں کہ اعمال میں کوتاہی کی تلافی تو ممکن ہے لیکن ایمان وعقیدہ ایسی انمول دولت ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ۔


آپ سے گزارش ہے کہ اس قادیانیت نوازی کا داغ جس قدر جلد ہو سکے خود سے دھو کر اس معاملے میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں توبہ تائب ہو جائیے ۔البتہ یہ خیال رہے کہ آپ کے بعض دوست نما دشمن آپ کی نجی مجلسوں کی وضاحتوں کے حوالے لیے پھرتے ہیں انہیں بھی خبر ہو اور آپ کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اب آپ ایک عام آدمی نہیں ہیں جس کی تنہائی اور خلوت کی باتوں کا اعتبار ہو بلکہ آپ ایک قومی سطح کے رہنما ہیں اس لیے تردید یاوضاحت میں درج ذیل تین چیزوں کا لحاظ رہے (i)صرف زبانی وضاحتیں کافی نہیں ہوتیں بلکہ انسان کا عمل اس کے قول کی تصدیق یا تردید ہوتی ہے۔

اس لیے جو بات کہیں اپنے عمل کو بھی اس مطابق پیش فرمائیں (ii)آپ نے ایک قادیانی کو وزیر خزانہ بنانے کا اعلان تو دھرنے میں کیا جو تمام ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا اور تمام اخبارات میں شائع ہوا اب اسی سطح کی تردید اور وضاحت بھی ضروری ہے ( iii)جس طرح ہمارے کلمے کا آغاز ”لا الہ“سے ہوتا ہے یعنی غیر اللہ کی نفی سے ”الااللہ “بعد میں ہے اسی طرح صرف ختم نبوت کے عقیدے پر ایمان کا اظہار کافی نہیں بلکہ قادیانیوں سے برأت بھی ضروری ہے ۔

الیکشن مہم کے دوران آپ نے اگرچہ جلسوں میں ختم نبوت کے عقیدے کا اظہار تو کیا جو بہت ہی خوش آئند بات ہے جس پر ہم آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں لیکن آپ نے نہ تو اس بات کی وضاحت ضروری سمجھی کہ آپ نے جماعت کی بنیادیں ڈالتے ہی قادیانیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وفد بھیجنے کی ضرورت کیوں محسوس کی تھی اور نہ ہی اپنے قادیانیوں سے تعلقات ومعاملات کے حوالے سے آئندہ کی پالیسی کی وضاحت کی جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ آج آپ دوبارہ انہیں قوتوں کے نرغے میں ہیں اور دانستہ یا نادانستہ قادیانیت کو پروموٹ کرنے کا باعث بن رہے ہیں ۔


جناب عمران خان ! آپ نے نیا پاکستان بنانے کے عزم کا اظہار کیا پاکستان تو نیا نہیں بن سکا لیکن وہ کپتان جس نے ورلڈ کپ جیت کر ،شوکت خانم ہسپتال بنا کر اور نمل یونیورسٹی کی بنیاد رکھ کر قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا اس کی جگہ ایک ایسا نیا عمران خان ضرور سامنے آگیا ہے جس کے کندھے پر سوار ہو کر بہت سے اسلام کے باغی اور پاکستان دشمن اپنے مذموم مقاصد کے تکمیل کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔

آپ نے پاکستان کو ظالم او ر لٹیرے حکمرانوں سے نجات دلانے کے لیے” آزادی مارچ “ کا سہارا لیا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ قادیانیوں ،گوہر شاہیوں ،گویّوں اور جس قسم کی منفی قوتوں کے نرغے میں آ گئے ہیں اسلام اور پاکستان سے محبت رکھنے والے نوجوانوں کو اپنے کپتان کو اس نرغے سے آزادی دلانے کے لیے ایک اور” آزادی مارچ “کا اہتمام کرنا پڑے گا ۔
آپ سے آخر میں دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا ! اپنے حال پر بھی رحم فرمائیں ! وطن عزیز کے حال پر بھی رحم فرمائیں اور ان کروڑوں لوگوں کے حال پر بھی رحم فرمائیں جو پاکستانی سیاست اور پاکستان کے مستقبل میں آپ کو ایک تیسرے آپشن اور امید کی کرن کے طور پر دیکھ رہے تھے ۔
والسلام
آپ کا خیر خواہ عبدالقدوس محمدی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :