آزادی مارچ اور دینی مدارس

بدھ 9 اکتوبر 2019

Abdul Quddoos Muhammadi

عبدالقدوس محمدی

آج کل ہر دوسرا صحافی دوست سوال کرتا ہے کہ ”کیا وفاق المدارس اور تنظیمات مدارس نے آزادی مارچ میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیاہے یا آزادی مارچ میں شرکت کرنے سے انکار کر دیاہے“کچھ حلقوں نے دینی مدارس کے بارے میں ایسے انداز سے پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے جیسے مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ صرف اور صرف مدارس کے طلبہ کے رحم و کرم پر ہے اور کچھ اپنی خواہش کو خبر بنا کر چلارہے ہیں کہ اتحاد تنظیمات مدارس نے آزادی مارچ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے-
ایسے میں مجھ سے جو بھی سوال کرتا ہے میں اس سے پوچھتا ہوں کہ لاہور سے شروع ہونے والی یا لاہور میں برپا ہونے والی ہر تحریک اور ہر سرگرمی میں پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ اور فیض یافتگان ہمیشہ پیش پیش رہے,اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی کے متعلقین کو کسی بھی پروگرام اور جلسے سے مائنس نہیں کیا جا سکتا -یہی حال کراچی اور دیگر شہروں کا بھی ہے لیکن کبھی پنجاب یونیورسٹی پر سوالات کی بوچھاڑ نہیں ہوئی کبھی قائد اعظم یونیورسٹی کے خلاف پروپیگنڈا نہیں ہوا،کبھی کراچی یونیورسٹی زیر بحث نہیں آئی- آپ نے ایسی خبریں نہیں سنی ہوں گی کہ پنجاب یونیورسٹی قاضی حسین احمد کے دھرنے کی آرگنائزر ہے،قائد اعظم یونیورسٹی نے پختون تحفظ موومنٹ کے مظاہرے میں شرکت کا فیصلہ کر لیاہے،بیکن،سٹی اور روٹس کے بچے اور بچیاں عمران خان کے دھرنے کی کامیابی کی وجہ ہیں،اسلامیہ کالج نے فاٹا انضمام کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کا پروگرام بنا لیا جبکہ اس کے برعکس جب سے مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کا اعلان کیا ہر طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ مدارس کے طلبہ،مدارس کی افرادی قوت،مدارس کا فیصلہ،وفاق المدارس کی پالیسی،اتحاد تنظیمات مدارس کا اجلاس یہ سب بالکل غیر متعلقہ سوالات اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا ہے اس لیے جب میں صحافی دوستوں سے یہ سوال کرتا ہوں تو پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی-
دوسری بات یہ عرض کرتا ہوں کہ دیکھیں مولانا فضل الرحمن کی پوری سیاست اگر دینی مدارس کے طلبہ کے رحم و کرم پر ہی ہوتی تو وہ کبھی بھی پارلیمانی سیاست کا حصہ نہ ہوتے کیونکہ دینی مدارس کے طلبہ کی بہت بڑی تعداد ان کمسن بچوں پر مشتمل ہے جن کے ابھی تک ووٹ ہی نہیں بنے اور جن کے بنے بھی ہیں ان میں سے بھی اکثریت ووٹ کے اندراج اور ووٹ کاسٹ کرنے کے لمبے چوڑے تردد میں نہیں پڑتی لیکن اس کے باوجود مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کے امیدواران تمام تر دھاندلی کے الزامات کے باوجود بھاری تعداد میں ووٹ حاصل کرتے ہیں-الیکشن جیتتے ہیں،سیٹیں حاصل کرتے ہیں بلکہ حالیہ انتخابات میں مولانا کی طرف سے دھاندلی کے تمام الزامات کے باوجود الیکشن کمیشن کی رپورٹ اور تصدیق کے مطابق مولانا کے امیدواروں نے پچیس لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے اگرالیکشن میں یہ حال تھاتو ابھی اندازہ کر لیں کہ اس تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہوگا- اس لیے ہمارے خیال میں مولانا کی اصل قوت ان کے وہ ووٹرز ہیں جو انہیں اسمبلیوں تک پہنچاتے یا اسمبلیوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں-
اس وقت بھی مولانا فضل الرحمن کی اپنی جماعت کے رجسٹرڈ ممبران کی تعداد ان کی آزادی مارچ کے لیے اعلان کردہ تعداد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے-بعض لوگ پنجاب کے بعض علاقوں کو دیکھ کر غلط اندازے لگاتے ہیں جبکہ کے پی کے,فاٹا اور بلوچستان میں مولانا فضل الرحمن کی بے پناہ حمایت اور مقبولیت ہے-سوشل میڈیا کے ذریعے لانگ مارچ کی ریہرسل کی جو تصاویر اورمناظر سامنے آ رہے ہیں وہ حیران کن ہیں خاص طور پر بلوچستان سے اس اطلاع نے تو ورطہ حیرت میں ڈال دیاہے کہ وہاں سے جمعیت کے پرچم والی ایک لاکھ چھوٹی گاڑیوں کو آزادی مارچ میں شامل کرنے پر محنت ہورہی ہے بڑی گاڑیاں اس کے علاوہ ہوں گی-
یہ ووٹرز اور مولانا کی پارٹی کے کارکن مدت سے کسی سرگرمی،کسی تحریک،کسی حکم کے منتظر تھے مولانا نے آخری دفعہ امریکا مردہ باد ریلیوں اور بعد ازاں نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی جارحیت کے خلاف بہت بڑے بڑے مظاہرے اور جلسے کیے،اسی طرح خدمات دارالعلوم دیوبند اور صدسالہ اجتماع کے علاوہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے کارکنوں اور ووٹرز کو کبھی بھی کسی امتحان میں نہیں ڈالا،کبھی انہیں میدان عمل میں نکلنے کا نہیں کہا-مولانا فضل الرحمن نے اپنے حامیوں کے ووٹوں کے ہمراہ تو اسلام آباد کا رخ کیا یا اسلام آباد پہنچنے کی کوشش کی لیکن اپنے حامیوں کو ساتھ لے کر کبھی بھی اسلام آباد جانے کا فیصلہ نہیں کیا اب وہ جس وثوق،اعتماداور دوٹوک انداز سے مختلف علاقوں میں 12 ملین مارچ اور مکمل ہوم ورک کرنے کے بعد آزادی مارچ کا اعلان کر رہے ہیں تو ان کے کارکنوں کی طرف سے بھی ان کے اعلان کو بھرپور پذیرائی مل رہی ہے-
یہاں یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ موجودہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت صورت حال تو یہ ہے کہ مدارس کے طلبہ تو رہنے دیجیے شاید جے یو آئی کے کارکنان سے بھی زیادہ دیگر لوگوں اورہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد غم و غصہ کی کیفیت میں ہیں-مسلم لیگ ن کے حالات,جذبات اور عزائم سب کے سامنے ہیں,پی پی پی کے بلاول اور اعتزاز احسن جیسے لیڈروں کی اپنی ''مجبوریاں'' ہوں گی لیکن عام جیالوں کا خمیر چونکہ مزاحمت سے اٹھا ہے اس لیے انہیں مولانا فضل الرحمن میں بھٹو دکھاء دینے لگا ہے اور خورشید شاہ کی گرفتاری اور کراچی پر کنٹرول کی کوشش کے بعد عملی طور پر پی پی مولانا کے لانگ مارچ کی صرف اسپورٹر ہی نہیں انویسٹر بھی بن سکتی ہے یہی حال باقی لوگوں کا بھی ہے خاص طور پر تاجر برادری اور کاروباری طبقے نے گزشتہ ایک سال جس بییقینی,نقصانات,تذلیل,تحقیر اور مندے کا سامنا کیا ان کا بس چلے تو وہ کیا سے کیا کردیں,جو لاکھوں لوگ ملوں اور کارخانوں کی بندش کی وجہ سے بے روزگار ہوئے ان کے پاس موجودہ حالات سے نجات پانے کے لیے آزادی مارچ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں اورپھر مہنگائی نے اس وقت فرسٹریشن کا جو ماحول بنا دیا اور ہر انسان جس بری طرح مہنگاء کی چکی میں پس رہا ہے اس کی تپش کمسن بچوں کی طرح مدرسوں میں زیر تعلیم طلبہ تو محسوس ہی نہیں کرتے یا یوں کہہ لیجیے کہ یہ ان کا دوران تعلیم مسئلہ ہی نہیں ہوتا اس لیے مدارس کے طلبہ کے غم میں ہلکان ہونے کی بجائے ان طبقات پر نظر رکھیے جو موجودہ صورت حال سے براہ راست متاثر ہوئے اور جن کے لیے اس حکومت سے نجات موت و حیات کا مسئلہ بن کر رہ گیاہے-
یہاں یہ امر پیش نظر رہے کہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ تو اگرچہ نہیں لیکن مدارس سے کسب فیض کرنے کے بعد منبر و محراب اور دیگر اہم ذمہ داریاں سنبھالنے بالخصوص رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے لاکھوں علماء کی مولانا فضل الرحمن کو بہر حال حمایت حاصل ہے-اگر مساجد کے ائمہ و خطباء,پیران گرامی اور عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ اپنے سو سو مقتدیوں,مریدوں,شاگردوں اور متعلقین کو بھی لے کر نکل آتے ہیں تو بات کہاں تک پہنچتی ہے۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمن نے بیک وقت بہت سے ایشوز کو اپنے لانگ مارچ کے مقاصد کے طور پر اجاگر کرکے خاص طور پر ناموس رسالت، قادیانیت اور دیگر موضوعات کی سنگینی کا احساس دلا کر اور تمام مسالک کی قیادت کو آن بورڈ لے کر مذہبی طبقات کو اپنا ساتھ دینے کے لیے یکسو کر دیا ہے اگرچہ اکثر سنجیدہ اور درد دل رکھنے والے لوگ اس معاملے میں سخت فکر مند ہیں کہ کہیں تصادم یا تشددکی کوئی صورت نہ بن جائے مولانا فضل الرحمن بھی اسی احساس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پرامن اور قانون کے دائرے میں رہنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں (اللہ رب العزت پاک وطن کی حفاظت فرمائیں)
 اس وقت صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ اگر مدارس مولانا فضل الرحمن اور ان کے لانگ مارچ سے لاتعلقی کا بھی اظہار کر دیں تب بھی جن خود سر نوجوانوں نے ان کے ساتھ شامل ہونا ہے انہوں نے بہر قیمت ہونا ہی ہے-لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی نوجوان جو پاکستانی ہے,اس ملک کا شہری ہے,اس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ہے وہ کوئی رائے رکھتا ہے,اس کی کسی سے سیاسی وابستگی ہے یا وہ موجودہ حکومت کو ملک و ملت کے لیے خطرناک اور سیکیورٹی رسک سمجھتا ہے تو کیا اسے صرف اس وجہ سے کہ اس کی ڈاڑھی ہے,وہ ٹوپی پہنتا ہے,وہ عمامہ باندھتا ہے یا وہ کسی وقت مدرسہ میں زیر تعلیم رہا اس سے احتجاج یا سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننے کا حق چھینا جا سکتا ہے۔

ویسے دیکھا جائے تو موجودہ حکومت اپنے اقدامات,پالیسیوں اور طرز عمل سیخود ہی آئے دن مولانا فضل الرحمان کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی ہے نہ صرف آسانیاں بلکہ مولانا کی سیاسی پیشن گوئیوں پر آئے روز مہر تصدیق ثبت کر رہی ہے خاص طور پر مدارس کے ساتھ جو حکومتی طرز عمل ہے,عید قربان کے موقع پر مدارس کو جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا, کوائف طلبی کے نام پر اہل مدارس کے ساتھ جو ہوتا ہے,مدارس کی سند لے کر میدان عمل میں جانے والے نوجوانوں سے جو سلوک ہوتا ہے,بینک اکاونٹس کھولنے کے زبانی وعدے کرکے عملی طور پر پہلے سے کھلے ہوئے اکاونٹ بند کیے جارہے ہیں,غیر ملکی مہمان طلبہ کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت کے حامی سمجھے جانے والے مفتی نعیم صاحب بھی مدارس کی قیادت سے مارچ میں شرکت کی اپیل کر چکے ہیں۔

ہر روز مدارس دشمنی پر مبنی کوئی نا کوئی ایسا نیا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اہل مدارس سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں-لیکن اس کے باوجود ہماری رائے ہے کہ جب تک مدارس کو بالکل ہی بند گلی میں نہ دھکیل دیا جائے اور جب تک تنگ آمد بجنگ آمد کی نوبت نہ آ جائے تب تک مدارس اور مدارس کی تنظیمات کو اپنی دیرینہ پالیسی اور طرز عمل کے مطابق خود کو سیاسی اور تنظیمی سرگرمیوں سے الگ ہی رکھنا چاہیے اور جیسے ہمیشہ بالخصوص نائن الیون کے بعد اہل مدارس نے خطے میں آنے والے نشیب وفراز سے خود کو اور اپنے مدارس کو الگ رکھا(اور اس میں اہل مدارس کو مولانا فضل الرحمن کی بھرپورمعاونت حاصل رہی)اگرچہ اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی اب بھی ویسا ہی کرنا ہوگا لیکن حکومت اور مقتدر اداروں کو بھی مدارس کو دیوار سے لگانے اور اصلاح کے نام پر فساد سے دوچار کرنے اور ان کی حریت و آزادی کو سلب کرنے کی مہم جوئی بہرحال ترک کر دینی چاہیے اسی میں ملک و ملت کی بہتری ہے-
میری اگر مولانا فضل الرحمن تک رسائی ہو تو ان سے عرض کروں کہ حضور!جیسے تبلیغی جماعت والے گشت پر جاتے ہوئے کسی کو دعاؤں کے لیے,ذکرواذکارکے لیے بٹھا کر جاتے ہیں ویسے ہی آپ بھی دینی مدارس کے طلبہ کے لیے اعلان فرما دیں کہ ''آپ ذکرکے لیے بیٹھ جائیں, دعائیں یا بددعائیں کریں آپ کی ابھی ہمیں آزادی مارچ کے لیے عملی ضرورت نہیں جب ہوگی تب آپ کو آواز دے لیں گے'' اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن کو جو صرف دینی مدارس کا لیڈر بنا کر انڈر اسٹیمیٹ کیا جاتا ہے اور ان کے لانگ مارچ کو مولویوں کا جلوس باور کروانے کی جو محنت ہورہی ہے اور پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے وہ دم توڑ جائے گا دوسرا میرے جیسے قلم، کتاب اور مصلی وخانقاہ سے وابستہ لوگوں کے لیے آسانی ہوجائے گی اور ارباب مدارس کو بلاوجہ ہراساں کرنے کا سلسلہ رک جائے گا اور مولانا کے سرپہ اعمال و وظائف اور مناجات و دعاؤں کا سایہ ہوجائے گا-ویسے سچ تو یہ ہے کہ مولانا کے اس اعلان کے بغیر ہی جب جب بجلی اور گیس کے بل آتے ہیں,جب جب مدرسہ کے بچوں کے لیے آٹا دال خریدنے جاتے ہیں تو آزادی مارچ کی کامیابی اور موجودہ حکومت سے نجات کی دعائیں خود بخود دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلتی ہیں لیکن اگر مولانا یہ اعلان بھی کر دیں گے تو سونے پر سہاگہ ہو جائے گا ۔

باقی جن لوگوں نے لانگ مارچ میں شرکت کرنی ہے انہوں نے کرنی ہی ہے-اس لیے مولانا سے بھی درخواست ہے کہ وہ مدارس اور اہل مدارس کو اس آزمائش اور پریشر سے نجات دلائیں لیکن جن مولانا کو ہم جانتے ہیں ان سے صرف اس بات کی درخواست ہی کی جا سکتی ہے ورنہ جو شخص پی پی کو خود سے لاتعلق نہ ہونے دے اور جو بلاول بھٹو کی تمام تر کج ادائیوں کے باوجود اپنی مخصوص مسکراہٹ اچھال کر کمال بے نیازی سے یہ کہہ دے کہ وہ اپنا برخوردار ہے اور اس کی ہر ادا پسند ہے وہ مدارس کے طلبہ والا ''رعب'' اور''ہوا'' ازخود ختم کرنے کے لیے ایسا کوئی اعلان کیوں کرے گا؟لگتا ہے کہ مولانا اس پروپیگنڈا کو بھی انجوائے کر رہے ہوں گے تاہم وفاق المدارس, تنظیمات مدارس اور دینی مدارس کو اپنی دیرینہ پالیسی کا اعلان و اظہار کرنا چاہیے اوریہ ثابت کرنا چاہیے کہ دینی مدارس تعلیمی ادارے ہیں اور وہ صرف تعلیم پر توجہ دیتے ہیں نہ صرف اداروں بلکہ طلبہ کو بھی وہ دوران تعلیم سیاسی سرگرمیوں اور تنظیمی وابستگیوں سے دور رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں- 
اسی طرح آزادی مارچ سے نمٹنے کی حکمت عملی طے کرنے والے بھی صرف مدرسوں میں حاضری لینے اور حاضری یقینی بنانے پر ہی نہ رہیں بلکہ باقی طبقات کے بارے میں بھی آنکھیں اورکان کھلے رکھیں-لگتا یوں ہے کہ جیسے نائن الیون کے بعد دینی مدارس کا گھیرا تنگ کیا جاتا رہا اور ان کی ہر ہر سانس کی مانیٹرنگ کی جاتی رہی لیکن آخر میں داعش اور دہشت گردوں کے حامی اور سہولت کارسیکولر تعلیمی اداروں سے برآمد ہوئے ایسے ہی آج کل مولانا فضل الرحمن کا بیانیہ ان لوگوں میں زیادہ مقبول ہو رہاہے جواگرچہ مولوی تو نہیں لیکن جن جن کے مالی، کاروباری،سیاسی مفادات پر موجودہ دورحکومت میں زد پڑی یہی وجہ ہے کہ آج کل مولانا فضل الرحمن کے ویڈیو کلپس مولویوں سے زیادہ عام لوگوں کے ہاں مقبول ہیں اور ان کے لانگ مارچ کے لیے صرف 20,20 روپے کا چندہ نہیں ہو رہا بلکہ نام نہاد احتساب, بھاری بھرکم ٹیکس,کاروبار کی تباہی اور بالکل دیوالیہ ہوجانے سے خوفزدہ بہت سے سیٹھ,تاجر,صنعتکار,سیاستدان اور پراپرٹی ڈیلر اب لانگ مارچ کے شرکاء کے لیے ''لنگر'' کی فکر میں لگے ہیں- کھیل بہت دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اللہ ہی ہمارے ملک کے حال پر رحم فرمائیں-
اورآخر میں جے یو آئی کے ''نام نہاد بہی خواہوں اور بعض سادہ لوح کارکنوں سے التماس ہے کہ وہ اپنی توانائیاں اپنے کاموں پر صرف کریں اور دینی مدارس اور تنظیمات مدارس کو بلاوجہ زیر بحث نہ لائیں اسی میں سب کا بھلا ہے-شکریہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :