امن کی تلاش

ہفتہ 22 فروری 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

کیا ہم ”امن کی تلاش “ کے نام پر ڈرامہ کر کے قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟ یا ہمیں واقعی امن کی تلاش ہے ؟اگرہمارے صاحب اختیار لیڈرانِ قوم ، جو تجربہ کار ہونے کے داعی بھی ہیں وہ امن کی تلاش میں مخلص ہیں تو پھر وزیر دفاع نے یہ کیوں اور کیسے کہہ دیا ہے کہ آرمی ایکشن کے لئے تقریر تو پہلے ہی سے تیار تھی۔گویا مذاکرات تو ایک ڈرامہ تھا، ویسے مذاکرات اگر میاں صاحب اپنے منشیوں سے کرانے کے بجائے قومی نمائندوں سے کراتے توحکومت کی مخلصانہ اور سنجیدہ کوششوں سے کامیاب ہو سکتے تھے اور ہم ایک طویل جنگ سے بچ سکتے تھے ۔


اِس میں دو رائے نہیں ہیں کہ ایف۔سی کے قیدی جوانوں کو شہید کرنے کے سانحہ عظیم پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان درندوں نے ایسی وحشیانہ بربریت کا مظاہرہ پہلی بار نہیں کیا ،اِن کا نامہ اعمال تو ایسی وارداتوں سے بھرا پڑا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن جیسا کہ حضرت علی  کا سنہری قول ہے کہ خون کو پانی سے دھایا جاتا ہے، خون سے نہیں،ہمیں اس موقعہ پر بڑے حوصلے اور تدبر کی ضرورت تھی۔

اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی قابل ِ غور ہے کہ امریکہ ہم سے بڑی فوجی طاقت ہے، اُس کے ساتھ کئی ممالک اُس کے اتحادی بھی ہیں،لیکن دس گیارہ سال کی طاقت آزمائی کے بعد اس نے ذلت و رسوائی کے سوا کیا کمایا ہے ؟ ہمارے صاحب اختیار لوگوں کو اس پہلو پر ضرور غوروفکر کرنا چاہیے تھی اورایسے مذاکرات ،جن میں فوجی ایکشن کے لئے کوئی تقریر پہلے سے تیار کر کے نہ رکھی ہوتی، صرف اور صرف قومی سلامتی اور مفادات کو ملحوظ ِ خاطر رکھا گیا ہوتا، کامیاب ہو سکتے تھے۔


اب مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہو رہی کہ میاں صاحب تو تاریخ ساز ہیرا پھیری کے وسیع تجربے سے قوم کے سربراہ بن بیٹھے ہیں۔چاروں اطراف سے تنقید ہو رہی ہے اب تو ۳۵ پیکچرز کی شرمناک واردات بھی سامنے آ گئی ہے لیکن میاں صاحب، اندھے کے ہاتھ میں بٹیر آجانے کے مصداق ، اقتدار کے بٹیر کو تھامے، جرا ء تِ رندانہ کا مظاہرہ کئے جا رہے ہیں ۔

میں تو یہی کہوں گا کہ بڑے ہمت والے انسان ہیں۔
بہر کیف اب ساری قوم کی دعائیں افواج ِ پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اللہ انہیں قدم قدم پر کامیابی سے ہمکنار کرے اور اُن کا محافظ ہو۔ آمین ثم آمین۔
کئی سالوں سے قوم طالبان کی مچائی ہوئی وحشیانہ بر بریت کا شکار ہو رہی ہے۔ پانچ سال پیپلز پارٹی حکومت میں اور آج مسلم لیگ (ن) حکومت میں اور پیپلز پارٹی اپوزیشن میں جلوہ افروز ہے۔

پہلے مسلم لیگ کی اپوزیشن کو فرینڈلی اپوزیشن اور اب پیپلز پارٹی کی اپوزیشن کو فرینڈلی اپوزیشن کہا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے لوٹ کھسوٹ کے سوا کچھ کیا ہے اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) نے تا حال امن قائم کرنے کے لئے کچھ کر کے دکھایا ہے۔با وجود اس کے کہ میاں صاحب نے اپنی الیکشن مہم کے دوران میں جہاں اور کئی وعدے کئی تھے وہاں امن قائم کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔

لیکن وعدے توآئینہ ِ دل کی طرح ہوتے ہیں، ٹوٹ جائیں تو ان کی قدرو قیمت بڑھ جاتی ہے۔شائد اسی لئے میاں صاحب نے اپنے سبھی وعدوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنی تمام تر توجہ لیب ٹاپ بانٹنے اور نو جواں نسل کو ایک سو ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے پر مرکوز کر رکھی ہے۔ گویا اُن کی تمام تر توجہ صرف ووٹ بنک کی آبیاری پر مر کوز ہے۔یہی پیسہ اگر ہمارے گھروں میں گھسے ہوئے طالبان کے خلاف پولیس فورس کو مستحکم بنانے پر خرچ کیا جاتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ کم از کم کسی کو تو عوام الناس کی سلامتی کی فکر بھی ہے۔

مارے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ایک ٹی۔وی رپورٹ کے مطابق کروڑوں کی آبادی پر مشتمل کراچی شہر میں پولیس کی کل نفری ۲۸ ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔لیکن ۲۸ ہزار میں سے صرف ۷ ہزار پولیس شہریوں کی حفاظت پر مامور ہے۔باقی ۲۱ ہزار پولیس مین لیڈر ان قوم کی پروٹو کال کی شاہانہ رسم نبھانے پر مامور ہیں اور یہی حال دوسرے صوبوں اور شہروں میں ہے۔

یہاں مجھے فیض # صاحب کا سنایا ہوا ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔جسے کم سے کم الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ ستمبر و اکتوبر ۱۹۷۸ ء ء میں ، جب فیض# صاحب یہاں ٹورونٹو میں میرے غریب خانے پر مقیم تھے ، تو یہاں فرینڈز آف کشمیر نامی تنظیم کے ایک لیڈر فیض #صاحب سے ملنے آ گئے ،کافی دیر کشمیریوں کی مظلو میت کے قصے کہانیاں فیض #صاحب کو سنانے کے بعد جب اٹھنے لگے تو اٹھتے اٹھتے انہوں نے فیض# صاحب سے ایک لطیفے کی فرمائش کر دی۔

جواباً فیض# صاحب نے متبسم چہرے کے ساتھ فرمایا۔
” بھئی قریشی صاحب ! بات یوں ہے کہ ایک کشمیری مہاتو، جب گھر میں ہوتے تھے تو ان کے گھر کی سبھی کھڑکیاں دروازے بند ہوتے تھے۔لیکن جب وہ کسی ضروت کے لئے گھر سے باہر جاتے تھے تو اپنے گھر کی سبھی کھڑکیاں دروازے کھلے چھوڑ جاتے تھے۔ایک دن کسی نے بڑی حیرانگی کے ساتھ ان سے پوچھا۔ ’مہاراج ! یہ کیا ماجرا ہے ؟ کہ جب آپ گھر میں ہوتے ہیں تو آ پ کے گھر کے سبھی دروازے اور کھڑکیا ں بند ہوتے ہیں، لیکن جب آپ باہر جاتے ہیں تو سارا گھر کھلا چھوڑ جاتے ہیں‘ تواُس کشمیری مہاتو نے جواب دیا۔

’در اصل اِس گھر میں ایک میں ہی سب سے قیمتی شے ہوں۔“لگتا ہے،ہماری غریب اور فاقہ کش قوم کے لیڈر ہی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں کہ ہر شہر میں پولیس کی نفری کا زیادہ حصہ جن کی حفاظت پر مامور ہے۔قوم کے مسائل سے بے رحم چشم پوشی کے حالات بدلتے ہیں اور نہ ہی قوم کی آنکھیں کھلتی ہیں ، جو اس واضح سی حدیث نبوی ﷺ کے باوجود کہ ” اُحد کی پہاڑی اپنی جگہ بدل سکتی ہے ، لیکن کسی انسا ن کی فطرت نہیں بدل سکتی۔

“ بار بار آزمائے ہوئے سورماوٴں کو، آزماتے رہتے ہیں،ایسی معصوم قوم کے لئے ، بس دعا ہی کی جا سکتی ہے اور اپنے ظل سبحانی،اُن کے شہزادوں و شہزادیوں اور مصاحبین کے لئے بھی کہ اللہ ان سب کو درندہ صفت طالبان کی نظر ِ بد سے محفوظ رکھے۔آ مین !
میں اپنی کتاب ” سوچ کا سفر،وزارتِ عظمیٰ تک“ کی تکمیل کے لئے اکثر اپنے دوستو ں سے پوچھتا رہتا ہوں کہ اگر آپ وزیر اعظم ہوتے تو پاکستان کو دہشت گردی کی دلدل سے نکالنے کے لئے کیا کرتے ؟ یہی سوال جب میں نے اپنے دوست افتخار بھٹی سے کیا تو اُن کے سرخ و سفید اور با رونق چہرے پر رنج و غم کی پر چھا ئیو ں نے اندھیرا کر دیا ۔

بڑے ہی رنجیدہ خاطر لہجے میں گویا ہوئے۔” در اصل ہمارے ہاں قوم کو در پیش مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔خیر اب تو بہت دیر ہو چکی ہے۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ سب سے پہلے ایسے سماج دشمن عناصر کے لئے انتہائی موثر قانو ن سازی کی جاتی، قوم کئی سالوں سے یہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ پولیس اور رینجرز والے بے چار ے اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈال کر ٹارگٹ کلرز ، بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کو پکڑتے ہیں،تو عدلیہ کوئی گواہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیتی ہے۔

“ افتخار بھٹی صاحب نے چند لمحوں کی سوچ بچار کے بعد مزید کہا۔”جس طرح کی فرض شناس اور ایماندار پولیس فورس موٹر وے پر ٹریفک کنٹرول کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔اتنی ہی تنخواہ ، قابل اعتمادٹرانسپورٹ اور ماڈرن اسلحے کی سہولتوں کے ساتھ پولیس فورس شہریوں کے دفاع کے لئے بھی تیار کی جانی چاہئے، اُن کی ٹرینگ پاکستان آرمی کے زمہ ہونی چاہیے،یہ پولیس شہریوں کو پروٹیکٹ کرنے کے ساتھ ساتھ بوقت ِ ضرورت افواج پاکستان کے ساتھ بھی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو سکتی ہے۔

“ افتخار بھٹی ایک بزنس مین اور ٹورنٹو کی پاکستانی کمیونٹی میں عزت مندانہ پہچان رکھتے ہیں اور ان کی عزت مندانہ پہچان کا راز ان کی کم گوئی میں ہے۔ کم بولتے لیکن اچھا بولتے ہیں، سب کی عزت کرتے اور سب سے عزت کراتے ہیں اور پاکستان کے لئے سبھی پاکستانیوں کی طرح انتہائی مخلصانہ اور درد مندانہ جذبات رکھتے ہیں۔انہوں نے میرے سوال کے جواب میں کچھ سوچتے ہوئے مزید کہا۔


قانون سازی اور موثر پولیس کے علاوہ ، دہشت گردی کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے۔بڑی مشکل یہ ہے کہ طالبان کوئی غیر نہیں،ہم ہی لوگوں میں سے ہیں،ہم ہی لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے اور ہمارے ساتھ ہی کھاتے پیتے ہیں، مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے نام ملتے ہیں، جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے اپنی قوم کے ساتھ غداری کی ہے اور ایسے بے ننگ و نام غداروں کی تاریخ کے عین مطابق پاکستانی طالبان کچھ دشمنانِ پاکستان طاقتوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ملک کو تباہ کر رہے ہیں اور ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہی بے ننگ و نام پاکستانی طالبان ہیں۔

اگر یہ ایک فورس کی شکل میں ، بہادروں کی طرح ہمارے سامنے آئیں تو ہماری بہادر افواج کے ہزار ڈیڑھ ہزار سپاہی بھی ان غداروں اور اسلامی شریعت سے بھٹکے ہوئے خبیثوں کو جہنم رسید کر سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ خبیث ہم لوگوں میں اپنا ئیت کی چادریں اوڑھے بیٹھے ہیں۔ اس لئے ان پر قابو پانے کے لئے فوجی ایکشن کی نہیں، ایک ایسی فورس کی ضرورت ہے جو گلی کوچوں میں نظر رکھ سکے کہ کون کیا کر رہا ہے ؟ اور ہماری اِس ضرورت کو بلدیاتی نظا م بڑے موثر انداز میں پورا کر سکتا ہے ، ہر حلقے کے کونسلر کے ساتھ ،اُس کے حلقے کی وسعت کے مطا بق کچھ لوگ لگائے جائیں، پڑھے لکھے سمجھدار اور سراغ رسانی کے اصولوں سے آشنا، جو محلے کے ایک ایک آدمی کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں کہ محلے میں کون نیا آیا ہے؟کیا کام کرتا ہے ؟اس کی کیا سرگرمیاں ہیں ؟مشکوک آدمی کے بارے میں پولیس کو خبر کر دی جائے، تو جو طالبان ہم میں موجود ہیں، شہری آبادی کو کوئی نقصان پہنچائے بغیراُن خبیثو ں کو جہنم رسید کیا جا سکتا ہے۔

“ کہہ کر افتخار بھٹی تو خاموش ہو گئے اور میں رات کا کافی حصہ اپنے بستر پر کروٹیں بدل بدل کر یہ سوچتا رہا کہ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے؟ایک دن میں مولانا سمیع الحق کو سلیم صافی کے پروگرام ” جرگہ“ میں سن رہا تھا۔ مولانا سمیع الحق محبت سے چھلکتے ہوئے لہجے میں کہہ رہے تھے کہ ہم طالبان کو اپنے بچوں کی طرح پالتے ہیں۔مجھے یہ سن کر بے حد دکھ ہوا کہ آ خر ہمارے قانون ساز ادارے بھنگ پی کر کیوں سوئے ہوئے ہیں۔

ایسے ملک دشمن عناصر ، جو طالبان کو اپنے بچوں کی طرح پالتے ہیں، کے خلاف ہمارے ملک میں کوئی قانون کیوں نہیں ہے ؟کیا کسی بھی ہوش مند ملک کا قانون ، ملک کو تباہی و بربادی کی طرف دہکیلنے والے غدارانِ قوم کو، اپنے بچوں کی طرح پالنے والے کسی بڑے مجرم کو معاف کر سکتا ہے ؟ انتہائی معذرت کے ساتھ”عالم دین“ ہمارے ملک کے لئے طالبان سے بھی زیادہ بڑا خطرہ ہے اور ہمارے ہاں اس قومی خطرے کا سب سے بڑا حمائتی، ہمارے ملک میں تعلیم کی کمی کا پیدا کردہ رحجان ہے۔جو داڑھی کو مکمل اسلام سمجھتا ہے۔جب کہ اسلام میں داڑھی ہے اور بڑا معزز مقام رکھتی ہے، لیکن داڑھی میں اسلام نہیں ہے،اسلام وہ ہے جو کردار میں نظر آئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :