آزادی کا منظرنامہ

بدھ 11 اگست 2021

Adeel Chaudhry

عدیل چوہدری

بر صضیر پاک و ہند کی تاریخ کا باب بہت تلخ بھی ہے اور بہت شیریں بھی مسلمانوں نے برصغیر پر آٹھ سو سال حکومت تک حکومت کی پھر اس خطے نے اس حکومت کا زوال بھی دیکھا جو اپنی عیش عشرت کے نشے میں مست تھی ، برصغیر پر مغلیہ سلطنت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی بادشاہ شاعری عاشقی و معاشقی میں مگن تھے ، سرمایا دھڑا دھڑ محلات بنانے میں استعمال ہو رہا تھا یہ سب ایسٹ انڈیا کمپنی کے جھنڈے تلے آئے انگریزوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا انہیں اپنے لیے راستہ صاف اور کھلا ملا اپنی سیاسی دھونس اور طاقت دکھانے کا سب سے بہترین موقع تھا ، تجارت کی غرض سے آئے گورے سیاست کرنے لگے اور آہستہ آہستہ ہندوستاں پر قابض ہو گئے ، مسلمان جو اس خطے کے حقیقی حکمران تھے جب ان کی آنکھیں کھلیں تو چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں اس کے بعد کوئی بھی کوشش بے سود ثابت ہوئی مسلمانوں نے آخری بار 1857 میں اپنی حکمرانی واپس لینے کی کوشش کی لیکن اتنے عرصے کی لاپرواہی اور عیاشی اپنے پاؤں جما چکی تھی مسلمان محکوم ہو گئے مسلمانوں کے ساتھ بسنے والے ہندو حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے انگریزوں کے چاپلوس بن گئے غلامی تو ان کےلیے نئی بات نہ تھی مسلمانوں کو اب اپنی غفلت کا خمیازہ بھگتنا تھا اور وہ اپنے ہی وطن میں اجنبی بن کر رہ گئے ، پھر ظلم و ستم اور معاشی اور معاشرتی استحصال کے جو پہاڑ مسلمانوں پر توڑے گئے اس سے تاریخ بھرے پڑی ہے ،
اک لمبا عرصہ حکمران رہنے والی قوم پر جب غلامی کی زنجیریں جکڑ دی گئیں تو ان کی آنکھیں کھلیں ، شرابوں اور شبابوں کے نشے اترنے میں وقت لگتا ہے ، آہستہ آہستہ ہوش میں آتی قوم نے پھر غلامی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن اب برصغیر کی سیاسی فضا کچھ اور تھی اب ہندو اپنے سیاسی پنجے مضبوط کر چکے تھے ، مجموعی طور پر اب برصغیر پر مسلمانوں کےلیے حالات مشکل تھے ، اس دور میں کچھ دور اندیش لوگوں نے مسلمانوں کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کیا اور سیاسی شعور بیدار کرنے میں جت گئے یہ سفر آسان نہیں تھا حالات بہت پیچیدہ ہو چکے تھے بہت کھٹن اور تھکا دینے والی تحریک کی شروعات تھی ۔

(جاری ہے)

قوم کو ماضی یاد دلانا ان کا وقار یاد دلانا کہ تم حاکم قوم وہ واپس اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا جدوجہد کا راستہ اپنانا ہوگا ، آہستہ آہستہ کوششیں رنگ لاتی گئیں اور کاروں بنتا گیا ، سیاسی خطے پر بحث چھڑی اور آخر کار اس بحث کو نیا موڑ دیا سر سید احمد خان نے “ دو قومی نظریہ “ پیش کر کے ، یہ وہ نقطہ آغاز تھا جب مسلمانوں کے لیے یہ عقدہ کھلا کہ اب وہ اس جدوجہد میں اپنا حکمرانی واپس لینے کےلیے اکیلے ہیں ہندو اب اپنے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں ان کے ساتھ رہنا دوبارہ کای غلامی کو گلے لگانے کے مترادف تھا اس بار غلطی کی گنجائش نہ تھی علامہ محمد اقبال جو اس خطے کے سیاسی منظر نامے کو سمجھ چکے تھے انہوں نے اپنی بصیرت سے یہ جان لیا تھا کہ انگریز اب زیادہ عرصہ ہندوستان پر قابض نہیں رہ سکتے ان کے جانے کے بعد طاقت کے حصول کی نئی جنگ چھڑ جائے گی اور مسلمان پھر سے تنہا رہ جائیں گے ، اس منظر نامے کے پیش نظر انہوں نے اپنے خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان اب صرف اپنے لیے الگ وطن کی جدوجہد کر یں گے اور تمام مسلمان اکثریتی علاقوں کو ملا کر الگ ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے ۔

اس سے مسلمانوں کی راہ کھلی ان کواپنی منزل نظر آئی اور اب ان کی جدوجہد واضح تھی تمام بڑے لیڈر اقبال کے اس خواب کی تعبیر میں جت گئے ہندو کی اکھنڈ بھارت کی سازش فاش ہو گئی اب مسلمان الگ وطن کےعلاوہ کسی اور چیز اکتفا کرنے سے قاصر تھے اس جدو جہد کی سرپرستی جس عظیم لیڈر کی تھی وہ اپنی فہم وفراست میں اپنی مثال آپ تھے ، میر کاروں قائد اعظم  محمد علی جناح نے اس تحریک میں جان بھری نہایت بےباک اور بااصول سیاست سے مسلمان کو ان کی منزل کی طرف لیتے چلے گئے آخر کار 14 اگست 1947 کو مسلمان اپنے لیے الگ وطن ، پاکستان بناے میں کامیاب ہوگئے ، یہ ملک اسلام کے نام بنا تھا مسلمانوں کےلیے یہ بہت بڑی نعمت تھی کہ جس می اب آزادی تھی ، برصگیر کی تقسیم کے وقت اس وطن کو اپنا مرکز مان کر لاکھوں مسلمانوں نے ہجرت کی اس ہجرت کا منظرنامہ بہت خوفناک اور تکلیف دہ ہے یہ ایک الگ تاریخ ہے جو خون سے لکی گئی ہے ۔

اس لیے بھی یہ وطن ہمیں عزیز ہے کہ ہمارے اجداد نےاپنی بے بہا قربانیوں کے عوض ہمیںیں یہ پرامن وطن دیا کہ جس میں ہم آزادی سے سانس لیتے ہیں ۔
اللہ تعالی اس پاک دھرتی کو شاد اور آباد رکھے (آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :