پاکستان اور ٹریفک مسائل

جمعرات 4 جون 2020

Adeela Zaka Bhatti

عدیلہ ذکاء بھٹی

پاکستان جنوبی ایشیاء کا ترقی پذیر ملک ہے۔ ہمیں بہت سے سنگین ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہےجب ملکی معیشت میں وسعت اور آبادی میں اضافہ ہوتا ہے تویہ مسائل اور بھی سنگین صورت اختیار کر لیتے ہیں۔اگرچہ غیر سرکاری تنظیموں اور سرکاری محکموں  نے ماحولیاتی تباہی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھاۓ ہیں لیکن پاکستان میں ماحولیاتی مسائل اب بھی باقی ہیں۔

ان مسائل میں سے ٹریفک مسائل کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔!!
بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پاکستان کے تقریبا  تمام بڑے شہروں میں ٹریفک کا مسلہ انتہائی شدید ہو چکا ہے ٹریفک میں اضافہ سے ٹریفک حادثات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں ٹریفک مسائل کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے۔
بلا شبہ تیز رفتار ڈرائیونگ،خراب سڑکیں،نا تجربہ کار ڈرائیور، ون و یلنگ اور دوسری بہت سی وجوہات ہیں جو ٹریفک کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہیں لیکن ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی بھی ان میں سے اہم وجہ ہے۔

(جاری ہے)


خاص طور پر شہروں اور مقامی سڑکو ں پر ٹریفک پولیس کو بد عنوانی کوئی پوشیدہ واقعہ نہیں ہے ۔پولیس افسران رشوت لیتے ہیں اور خلاف ورزی کو نظر انداز ہیں یا پھر اپنی نگرانی میں خلاف ورزی کی اجازت دیتے ہیں اپنی پوزیشن/ وردی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سارے پولیس افسران آزادانہ یا کسی کولیگ کے ساتھ مل کر ٹرانسپورٹ میں اپنی ایسی خدمات انجام دیتے ہیں اور دوسری طرف ڈرائیور اپنے مالکان کے ہمرا پولیس کی اتفاق رائے سے خلاف ورزياں کرتے پھر رہے ہیں ۔

تقريبا ہر دوسرا مسافر پولیس ، سرکاری عہدداروں اور سیاستدانوں کا حوالہ رکھتاہے ۔اگر ٹریفک پولیس اپنا کام ایمان داری سے سر انجام دیتے ہوئے مسافروں کو قانون کی خلاف ورزی پر پکڑے بھی تو اسطرح کے حوالہ جات ملنے پر بری کر دیتی ہے۔
ابھی پچھلے ہی دنوں "کرنل کی اہلیہ"  کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی۔محترما  چند منٹ انتظار کرنے کی بجاے قوانین توڑتے اور اور قانون نافذ کرنے والے پولیس اہلکار کے ساتھ بدسلوكی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پائی گئیں۔

اس سے قبل  ہمارے پاس پی ٹی آئی کی ایم پی اے عظمیٰ کاردار  اور وزیرانسانی حقوق شیری مزاری جیسی اور  بہت سی مثالیں موجود ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو ٹریفک قوانین کی پابندی کرنے کی بجائے تشدد اور دھمکیوں کا پرچار کرتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کے میں کون ہوں ؟ میں انسپکٹر جنرل کو آپ کی اطلاع دوں گا!!  ہم سب نے کئی دفعہ اس طرح کے الفاظ  ان جیسی شخصیات کے منہ سے  سنے ہوں گے۔

یہ عمل نا صرف خلاف ورزیو ں کو فروغ دے رہا ہے بلکہ تعصب اور اقربا پروری کی ثقافت  کو بھی پروان چڑھا رہا ہے۔جب حکمران طبقہ ہی اصولوں کی پاسداری نہیں کرتا تو عوام کیا کرے گی ؟
ہمارے ہاں جو انتشار پایا جاتا ہے وہ ان اشرافیہ کی ناقص مثالیں قائم کرنے کا ہی نتیجہ ہے جس کی وجہ سے عام لوگ بھی کہتے ہیں کے "اگر وہ بچ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے"
ہمارے پیارے ملک میں ٹریفک کے مسائل کو کم کرنے کےلیے اور سڑکوں پر قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے اس پریکٹس  کی حوصلہ شکنی کرنےسخت کی ضرورت ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :