میڈیا اورسیاست کا جنازہ

ہفتہ 5 اگست 2017

Afzal Sayal

افضل سیال

میڈیا اورسیاست کا جنازہ بڑی دھوم سے نکل رہا ہے آہیے ملکر پڑتے ہیں ،المیہ ہے ہمارے سیاست دان ہمشہ اپنی نااہلی ،ناکامی ، کم عقلی ، مفاد پرستی کو اسٹبلشمنٹ اور فوج کی سازش قرار دیتے آئے ہیں اور یہ روش آج بھی جاری ہے،کرپشن ، قانون شکنی ،جمہوریت کے نام پر بادشاہت خود قائم کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں اسٹبلشمنٹ پر ،،پھر جب کوئی وردی والا قانون شکن حکومت پر قبضہ کرلیتا ہے تو پھر ہم جمہوریت کا رونا روتے ہیں ،،مجھے کامل یقین ہے عمران خان نے 100فیصد مسیج کیے ہوں گے،،عائشہ گلالئی عمران خان سے شادی کرنا چاہتی تھی اور تحریک انصاف کی وارثتی مالک بننے کا خواب دیکھ رہی تھی ، خان کو پلان کے تحت ٹریپ کیا گیا، ورنہ 2013کے مسیج کوئی سنمبھال کر نہیں رکھتا، اقتدار کی خاطر بھائی بھائی کا اور باپ بیٹا کا قتل کردینے کی تاریخ گواہ ہے، پارٹی کے مستقبل کا خواب دیکھنے والی پارسا خاتون کوجب NA1 کےٹکٹ کاانکارہوا خواب ٹوٹا تو متحرمہ اپنے حواس کھو بیٹھی اور مفاد پرست نادان سیاسی گدھ کے ہتھ چڑھ گئی ، اور یہ انتہائی نامناسب گھٹیا قدم اٹھا یا جو ایک عزت دار اور خاندانی لڑکی ایسا سوچ بھی نہیں سکتی ، اس خاتون کا مستقبل مختاراں مائی سے مختلف نہیں ہوگا ، عمران خان نے بھی سنگین غلطی کی ہے، ملک کے طاقتور مافیا سے لڑنے والے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں، میں پہلے بھی لکھ چکا عمران خان جیسا شخص کا وزیر اعظم بننا معجزہ ہوگا ،یہ ناممکنات میں سے ہے ، خان کو اپنی غلطی کی سزا مل چکی اور بہت نقصان بھی ہوچکا ،، عائشہ گلالئی نے سیاست سے وابستہ تمام خواتین کی عزت اور خاندانی راویات کو پامال کیا ہے ، موصوفہ نے اپنے پٹھان ہونے اور غیرمند ہونے کا گیت سنایا کے ہم تو گھر میں میل ڈرئیور بھی نہیں رکھتے ، مطلب جو گھروں میں میل ڈرئیور رکھتے ہیں وہ غیرت مند نہیں ہیں ،،مجھے یاد آیا ایک دلچسپ واقعہ، اسلام باد میں عمران خان اور ڈاکٹرقادری کا دھرنا جاری تھا تو ایک رات پولیس نے دھرنے کو آنے جانے والے تمام راستے بند کردیے، میں بھی اپنی صحافتی ذمہ داری کی غرض سے دھرنے میں موجود تھا تو یہ خاتون پارسا گلالئی میرے پاس آئی میں اس وقت اپنی گاڑی کرولا میں کیمرہ مین قدیر خان کے ساتھ کوریج سے تھک ہار کر بیٹھا سکون کی تلاش میں تھا ، فرمانے لگیں کہ راستے بند ہیں اگر آپ مجھے پارلیمنٹ لاجزتک ڈرئیور بھیج کر پہنچا دیں تو نوازش ہوگی میں نے کہا کے میری ڈیوٹی ختم ہوچکی ہے ہم بھی ہوٹل کے لیے نکل رہے ہیں بس 15،20 منٹ میں اکٹھے نکلتے ہیں کیونکہ میرے پاس ڈرئیور نہیں تھا اور میں اپنی ذاتی گاڑی خود ڈرئیو کرتا تھا ،،دھرنے کے دوران میراتھن کوریج کی وجہ سےموصوفہ کے ساتھ ہیلوہائے ہوچکی تھی رات کا 1 بج چکا تھا یہ میری گاڑی میں بیٹھی اور ہم اپنی منزل کی طرف نکلے تو بڑی مشکل سے ایک راستہ بری امام کی جانب سے ملا جو کچا اور جنگل کے درمیان سے تھا راستے اتنا پرخطر اور دشوار تھا کے بڑی مشکل سے ہم تقریبا 10منٹ کا سفر 2گھنٹے میں طے کرسکے ہمارے آگے صرف دو گاڑیاں تھیں اور پولیس نے وہ راستہ ہمیں بتایا تھا ، راستے میں میری ان سے صرف اس موضوع پر بات ہوئی کے حکومت اور ن لیگ دھرنے میں فحاشی پر پرپیگنڈا کر رہی ہے تفصیل میں نہیں جاتا اس موضوع سے آپ اندازہ کر لیں ،میں لکھوں گا تو شکایت ہو گی ، میل ڈرئیور گھر میں رکھنے کو توہین سمجھنے والی پارسا بی بی کے فلیٹ پر گئے چائے پی اور ہوٹل چلے گئے ،،،،
نواز شریف اور بینظر کے سابق دونوں ادوار حکومت کو پڑھ لیا جائے تو موجود الزام تراشی اور بے شرمی والی سیاست اسی کا تسلسل ہے ، آج عام شہری کے نزدیک سیاست گالی بن چکی اور ساستدان اسکی بھیانک تصویر ،،، یہ روش جمہوریت کے لیے زہرقاتل ثابت ہوگی ، ہمارے سیاست دانوں نے اگر اسی طرح ذاتیات کی سیاست کو اپناے رکھا اور میڈیا نے عائشہ گلالئی جیسے کرداروں کو تیار کرکے کے اپنی ذاتی دشمنی اور انا کو تسکین پہنچانے کی کوشش جاری رکھی تو جمہوریت کے ساتھ میڈیا بھی اپنا جنازہ پڑھ لے، عمران خان پر تنقید کرنے والے ضرور کریں اور کرنی بھی چاہیے لیکن اگر بریکنگ نیوز،تنقید ، سیاست کا میرٹ کا تعین یہی ہے تو ماسوائے سراج الحق کے کوئی پارٹی لیڈر ، کوئی سیاست دان ، کوئی جرنیل ، کوئی وزیر، مشیر ، سفیر ، اینکر ، میڈیا ہاوس مالک ، پارسا اور حاجی ثنااللہ ہے تو سامنے آئے ، اسکا کچاچٹھا نہ کھول دوں تو صحافت چھوڑ دوں گا ،کوڑے کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر کچھ مٹھی بھر کوڑے کو ادھر ادھر اچھال دینے سے کوئی پاکیزہ اور پارسا نہیں ہوجاتا، بلکہ گند پھیل جاتا ہے ، شریف بردارن اور انکے بچوں کی ذاتی اتنے سیکنڈل ہیں کے پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے اور لکھی بھی جاچکی ، ایسا تعفن زدہ ماحول بنا کر ہم سب گندے ہوں گے اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ، ہمارے سیاست دان آخر کب تک اپنی ناکامی ،نااہلی ، بدکرداری اور نادان طرزسیاست پر اسٹبلشمنٹ اور فوج عدلیہ کو موردالزام ٹھہراہیں گے ، ہم اپنے اپنے گریبانوں میں کب جھانکھیں گے ،جب سیاست دانوں کا ایسا بدبودار چہرہ عوام کے سامنے ہوگا تو وہ کیسے آمریت کا راستہ روکیں گے اور جمہوریت کی خاطر اپنے سینے پیش کریں گے ، آج بھی پاکستان میں جمہوریت آمریتی قوتوں کا ایک یرغمال نظام ہے ، ہمارا میڈیا اور سیاست دان ملکر نفرت انگیزی ، اور ذاتیات پر مبنی مہم کو قومی فریضہ سمجھ کردانستہ یاغیر دانستہ اپنے ہی جنازہ نکال رہے ہیں ، میڈیا میں یا سیاست دانوں میں ہے جرات کسی سابق جرنیل کے ہی کرتوت اور کارنامے ہی قوم کو بتا دیں ،جب ملک دو حصوں میں تقسیم ہو رہا تھا پاکستانی فوج کا ایک حصہ بھارت کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال چکا تھا تو ہماے ملک کا جرنیل یٰحیی خان ایوان صدر میں فحاشہ عورتوں کے ساتھ شراب کے نشے میں دھت رنگ ریلیاں منا رہا تھا ، جب اسکو ہوش آیا تو بنگلہ دیش بن چکا تھا ، تاریخ سب سے بڑا استاد ہے اگر کوئی پڑھے ،جب ہم عوام کے سامنے سیاست دان کو چور ،لفنگے، بدکردار ، کرپٹ بنادیں گے اور سیاست گناہ کیبرہ شمار ہوگی تو پھر کوئی بھی قانون شکن قانون توڑے گا تو عوام ماضی کی طرح ویلکم کریں گے اور مٹھائیاں تقسیم ہوں گی ۔

(جاری ہے)

۔ سیاست دان اور میڈیا آمریت کی راہ ہموار نہ کریں ،،یاد رکھنا جمہوریت کے جنازے کے ساتھ سیاست دانوں اورمیڈیا کا بھی جنازہ نکلے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :