یو م آزادی

بدھ 18 اگست 2021

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

پاکستان اسلام کے نا م پر معر ض و جو د میں آیا اور اسی دینی جذبہ کے تحت مسلما نوں نے ہندوستان سے ہجر ت کی۔ عام طور پر ہجرت یکطر فہ ہو تی رہی ہے لیکن یہ ہجر ت دو طر فہ تھی۔ پا کستان کی تشکیل کے فارمو لے میں مو جو دہ پا کستان جسمیں مسلمان آباد ی کی اکثریت تھی ان علا قوں سے ہندو اور سکھ آبا دی ہندو ستان منتقل ہونی تھی اور اسی طر ح ہندو ستان میں بسنے والے مسلمان اپنے نئے ملک میں جا بسیں گے ۔

ہندو ستان کے مشر قی پنجاب کے ملحقہ اضلا ع پا کستان کا حصہ بنائے جا نے کی تجویز تھی لیکن آخری لمحوں میں ضلع فیروز پور، گر داسپور اور دیگر علا قہ جا ت کو ہندو ستان کا حصہ رہنے دیا گیا جسمیں غیر وں کا تو ہا تھ تھا لیکن اپنوں میں چھپے دشمنوں نے وہ کھیل کھیلا جس سے لا کھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا، خوا تین کی بے حر متی کی گئی ، معصو م بچوں اور بچیوں کو چھین لیا گیا یا پھر اس خو ف سے وا لدین انہیں کسی کے حوالے کر نے پر مجبور ہوئے ۔

(جاری ہے)

تفصیلات لکھنا آسان نہیں ہے اور اب اسکا کوئی فا ئدہ بھی نہیں ہو سکتا۔ حکو مت بر طا نیہ نے اپنے طور پر اپنے وفاداروں کو یہ فرائض سونپے تھے کہ مہا جرین کو آمدورفت میں مشکل پیش نہ آئے اور صدیوں سے بسنے والوں نے اپنے دوستوں کو رخصت کیا۔ دونوں اطراف کے مہا جرین اپنا قیمتی سا مان بھی انہی کے پا س چھور گئے ، انہیں یقین تھا کہ وہ وا پس آئیں گے اور اپنا قیمتی سا مان واپس حا صل کر سکیں گے ۔

اسی دوران دونوں اطراف چند شر پسندوں نے افواہیں پھیلا ئیں اس طر ح مظا لم ڈھا ئے گئے کہ ضبط تحریر میں لا نا مشکل ہے ۔ صدیوں سے ایک سر زمین پر اپنوں کی طر ح رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیا سے ہوگئے ۔ مہا جرین اپنے ملک میں پہنچنے پر بھی بے یارو و مدد گار تھے اور طویل عر صہ تک دوسرے اور تیسرے در جہ کے شہری رہے۔
بھا رت کے ضلع فیز وز پور سے خا لہ ممتاز اپنے خا ندان کے ساتھ پا کستان کی حدود میں دا خل ہوئی تو وہ ایک بیٹے کی ما ں تھی ۔

اسکا گذشتہ سال 95سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ ایک دفعہ میں نے اس سے پو چھا کہ خا لہ آپ کچھ تو بتائیں کہ پا کستان کیسے بنا؟ وہ ہمیشہ خا موش ہو جا تی لیکن اسکی آنکھیں نم دکھائی دیتیں۔ اسکا دکھ جا ننے کیلئے ہماری طرف سے بھی اصرار بڑھتا گیا ۔ ایک دن وہ اپنے آنسو ؤں سے آزا دی کا مطلب سمجھا رہی تھی ۔ وہ بو لیں کہ ہم ضلع فیروز پور کے مضا فات میں اپنے خاندان کے سا تھ شا ید صد یوں سے آباد تھے۔

گھر میں مویشی ، بھیڑ بکریاں اور خو شحا ل زند گی جی رہے تھے۔ پاکستان پننے کی خو شی تھی اور ہمیں کہا گیا کہ یہ علا قے پا کستان کا حصہ رہیں گے جبکہ دیگر حصوں سے مسلمان نئے ملک پا کستان ہجرت کریں گے۔ گزرتے قا فلوں کو دیکھ رہے ہو تے تھے اور بہت خو ش تھے کہ اپنا ملک جو اسلام کے نا م پر معر ض وجو د میں آرہا ہے ۔ اپنا ملک اور اپنی حکو مت ہو گی ۔

مذہبی آزا دی ہو گی شا ید قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ ایک رات انگریز حکو مت کے کار ندوں نے اعلا ن کیا کہ یہ تمام اضلا ع سے مسلم آبادی پا کستان ہجرت کریگی اور فی الفور تیاری کرلیں ۔ اپنے گھروں کو چھوڑ نے کا دکھ اپنی جگہ لیکن اسلام کے انا م پر قا ئم ہونے والے اپنے ملک کی خو شی زیا دہ تھی۔ رات گہری ہوئی تو ہمارا قا فلہ تیار ہوا ۔ ضروری سا مان جسمیں نقعد ی اور سو نا چا ندی کے زیوارات شا مل تھے سا تھ لیے لیکن اس سے پہلے اپنے پا س بند ھے جا نوروں، ما ل مویشیوں کو آزا د کر دیا اور اس وقت آزا دی کا یہی نذرا نہ تھا۔

رات کو قافلوں کے سفر کی اجا ز ت اس لیے بھی دی گئی کہ یہ بات پھیل چکی تھی کہ پاکسان سے آنے والے مہا جرین کو راستے میں قتل کیا جا رہا ہے اور لو ٹا جا رہا ہے ۔ ہجرت کا سفر رات کو جا ری رہتا اور دن کو چھپ کر دن گذارا کر تے ۔ خا لہ ممتا ز خا مو ش ہو گئی تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ پھر بو لی پا کستا ن میں دا خل ہوئے تو میری بہن در یا کو عبور کر تے ہوئے ہم سے بچھڑ گئی ۔

کچھ دن کیمپوں میں گزر ے تو کچھ سا ل مختلف اضلا ع میں اپنی ملکیت ارا ضی کے ثبوت اٹھا ئے دھکے کھا تے رہے ۔ وہ اپنی یادوں کو تا زہ کر تے ہوئے بتا تی کہ جب کبھی کا لی آند ھی آتی تو ہم کہتے کہ کہیں نا حق قتل ہوا ہے ۔ اب روز قتل کی خبریں ہو تی ہیں ۔ کہیں قتل ہو تا تو پو لیس اس وقت تک وا پس نہیں جا تی تھی جب تک مجر م کو گر فتار نہ کر لیتی ۔ آج پورا خا ندان کوئی کسی جگہ تو کوئی کسی اور ضلع میں ، آج بھی مہا جر نجا نے کب تک رہیں گے ۔


خا ندانوں کی تقسیم کر نے کا یہ حکم میاں ممتاز دولتا نہ نے قا ئد اعظم کی وا ضع ہدا یات کے بر عکس کیا تھا اور قا ئد کا فر مان تھا کہ ایک ہی گا ؤں سے آنیوالوں کو کسی ایک گا ؤں میں آباد کریں تا کہ وہ جلد اپنے پا ؤں پر کھڑے ہو سکیں لیکن فر مان کے بر عکس کسی بھا ئی کو قصور تو دوسرے بھا ئی کو ڈی جی خان ، ایک بہن کو شیخو پورہ تو دوسری کو بہا ولنگر زمین الا ٹ ہوئی مکا فا ت عمل دیکھیں آٹھ سو مر بع زرعی ارا ضی کے ما لک میاں ممتاز دولتا نہ کی پہلی ہی نسل کے پا س لڈن میں ایک مر لہ زمین نہیں بچی جس کر سی کو ممتاز دولتا نہ بہت عزیز رکھتے تھے چو نکہ اُسپر وائسرائے آکر بیٹھے تھے پندرہ سا ل قبل میلسی کے ایک حجا م نے چار ہزارروپے میں خر یدی ۔

اکلو تے بیٹے جا وید دو لتا نہ کو اولا د نر ینہ سے محروم رکھا۔ دولتا نہ ہا ؤس لڈن (وہا ڑی) کسی نے خر ید لیا ۔ میاں جا وید دو لتا نہ با ہر کی طر ف مو جو د ایک چھوٹے سے کمرے میں چند دن گذار کر اپنی یا دیں یا زہ کر کے کرا چی لوٹ جا تے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ مہا جرین کی آباد کا ری میں معا ونت کر نے والے سر گودھا کے نو ن فیملی کے سا تھ بھی ایسے ہی معا ملا ت ہوئے ۔

قدرت نے وہ انتقام لیا کہ نا م و نشا ن مٹ گئے ۔ نو جوان نسل غا فل ہے اپنے آباؤ اجداد کی قربا نیوں سے، کتنا ظلم سہا ، کتنی اذیتیں بر داشت کیں لیکن یہ نئی نسل کاروں پر پا کستا نی پر چم اور اندر انڈین گا نے سن رہے ہو تے ہیں ۔ نو جوان نسل کو قر با نیوں سے حا صل کیے گئے پا کستان سے دوررکھا گیا۔ 1947ء میں بچھڑوں کی آج بھی انتظار کی جا رہی ہے ۔ ایسی کتنی خا لہ ممتاز یں اپنے بھا ئیوں ، بہنوں، بیٹے اور بیٹیوں کی منتظر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :