سیاسی بساط کے مہرے

منگل 15 فروری 2022

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

ٹی وی پروگرام میں بیٹھے ایک ریٹائرڈ جرنیل نے ایک خوبصورت بات کی ہے کہ کوئی جرنیل یہ پسند نہیں کریگا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے ملک کی سیا سی صورتحال اس قدر پرا گندہ کر جائے کہ اسے تاریخ میں اچھے لفظوں میں یا دنہ کیا جائے۔ بظاہر تو ایک سادہ سا تبصرہ تھا لیکن اہل فکر ونظر کیلئے پاکستان کی سیا سی تاریخ ومستقبل بہت شفاف نظر آنے لگی ہے ۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملکی سیاسی فضا اس قدرغیر یقینی نظر آرہی ہے کہ ہر سیاسی کارکن اپنے سیاسی مستقبل سے بے خبر نظر آتا ہے ۔ پی ڈی ایم کے سربراہی اہم اجلاس اور مسلم لیگ ن کے ساتھ ایم کیو ایم کی ملاقاتیں ، مسلم لیگ ق کے ساتھ مسلم لیگ ن اور پھر مو لا نا فضل الرحمن کی ملاقاتیں بظاہر حیران کن ہیں اور اگر ایسی سیا سی صورتحال میں لانگ مارچ کی تاریخ بھی نزدیک ہو، مارچ کے لانگ مارچ کی باتیں بھی چل رہی ہوں بلکہ تاریخ مقرر ہو چکی ہو تو ایسے میں عدم اعتماد کی باتیں بھی ہوں، صر ف باتیں ہی نہیں عبوری وزیراعظم کے نام بھی فائنل ہورہے ہوں تو ایسی صورت حال میں غیر یقینی اور کارکنان کی پریشانی تو بنتی ہے کیو نکہ ہمارے اصل نمائندے جو ایم این اور ایم پی اے ہیں وہ بھی ملاقاتوں میں مصروف نظر آتے ہیں اپنے مستقبل کی فکر میں ہوں تو یہ ہمیشہ سے ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

سیا سی پنچھیوں کا سفر جاری رہتا ہے ۔ سیاست کو سمجھنے والوں کو صر ف اس اہم نکتے کو سمجھنا ہو گا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کا اعلان کیا اور اسی طر ح پی ڈی ایم کا لانگ مارچ بعد میں طے پایا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی جماعتیں کسی بھی لا نگ مارچ سے بچنا چاہتی ہیں ۔ اسی خدشہ کو لیکر آصف زرداری پنجاب تشریف لائے اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں سے ملے اور شہباز شریف سے ملا قا ت کر کے پوری دنیا کو بتا یا کہ سیا ست میں کوئی بات حر ف آخرنہیں ہوتی اور پاکستانیوں کو بھی بتا یا کہ سڑکوں پر گھسیٹنے اورپیٹ پھاڑنے کی باتیں محض سیا سی باتیں ہوتیں ہیں اور عوام کو بے وقوف بنا یا جا تا ہے ۔

آصف زرداری نے پنجاب میں ایک تما شا لگا یا اور وہ چاہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو نا کام بنا یا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے لانگ مارچ کو تو محض ایک سیا سی سر گرمی سمجھتے ہیں اور اسلام آباد میں کو ئی دھرنا نہیں ہوگا۔ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ میں مولانا فضل الرحمن کے کارکنان ہمیشہ سے متحرک رہے ہیں اور وہ سیا سی کارکن نہیں ہیں وہ مذہبی کارکنان ہیں وہ ہر قسمی تحریک کو مذہبی اور دینی تحریک سمجھتے ہیں ہر جلسہ کو ختم نبوت کاجلسہ گر دانتے ہیں ایسے کارکنان جس کا کوئی سیا سی شعورنہ ہو ان سے ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے ۔

سب لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ گذشتہ ساڑھے تین سال سے بھی زائد عرصہ میں ڈیزل کے نعرے لگانے والوں نے مولانا فضل الرحمن کا کچھ نہیں بگاڑسکے بلکہ خیبر پختونخون میں ہونے والے بلدیا تی انتخابات کاپہلا مرحلہ جیت لیا جس کا مطلب واضع ہے کہ صوبہ پختون خواہ میں جماعت کی جڑیں نہ صرف مضبوط ہیں بلکہ وہ تیزی سے مقبول جماعت ثابت ہوئی ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو ہمیشہ سیا سی انداز سے سوچتی ہے اور پھر آگے بڑھتی ہے ۔

آصف زردار ی کی تربیت بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوئی ہے اور پانچ سالہ اقتدار ان کو قابل سیاستدان بنانے میں کارآمد ثابت ہوا ہے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں گذشتہ پندرہ سال سے متواتر سیاہ سفید کی مالک ہے وہ عام انتخابات تک سندھ میں بر سر اقتدار رہنا چاہتی ہے تاکہ آئندہ بھی وہ اقتدار میں رہ سکے ان کے لانگ مارچ کا مقصد پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو نقصان پہنچا نا ہے اور اسی پروگرام کے تحت حالیہ ملاقاتیں ہوئی ہیں اور اسی دوران تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈالا گیاہے تاکہ لانگ مارچوں سے جان چھوٹے اور تحریک عدم اعتماد کے عرصہ میں لانگ مارچ گم ہوجائیں کیونکہ وہ سیاسی سوچ رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگا لہذا وہ تحریک انصاف کی مدد کو پہنچے ہیں دوسری طرف مسلم لیگ ن بھی اسوقت حکومت کو گرانا نہیں چاہتی ۔

ایک تو وزیراعظم کے نام پراتفاق مشکل بات ہے دوسری طر ف تحریک انصاف کیلئے حکومت سے نکلنا اور نہ نکلنا دونوں صورتیں حق میں جا تی ہیں ۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا میاب نہیں ہوگی اور لانگ مارچ فوری طور پر ٹائیں ٹائیں فش ہو جائیگا اور مقتدرا اداروں کے سامنے سر خرو بھی ہوجائیں گے ۔ یہی صورتحال مسلم لیگ ن کاہے وہ تحریک انصاف کو اس وقت شہید نہیں بننے دیگی اور ان کے ووٹ بنک میں اضافہ نہیں چاہے گی ۔

میرے قارئین کرام کو یہ بات سمجھ آچکی ہوگی کہ جس ریٹائر ڈ جرنیل نے یہ کہا ہے کہ کوئی بھی جرنیل ہر گز نہیں چاہے گا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ احسن طریقہ سے لینے کی بجائے ملک کو اندھیروں میں دھکیل دے۔ بات تو بس آسان ہے اگر قارئین کو سمجھ آگئی ہے تو سکون کیجئے گا۔ سیاست میں ایسے حالات آتے رہتے ہیں لیکن دیگر کوئی خطرناک صورتحال پیش نہیں آئیگی ۔ حکومت پانچ سال پورے کریگی اور قبل از وقت انتخابات ہو سکتے ہیں اس وقت تک ملک میں دیگر جماعتیں جنم لے چکی ہونگی اور مسلم لیگ ن قصہ پارینہ بن چکی ہوگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :