ڈیرہ غازیخان کا جلسہ اور تحریک لبیک کی سیاست

پیر 8 نومبر 2021

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

اس میں کوئی شک و شبہ والی با ت نہیں کہ ڈیرہ غازیخان میں پی ڈی ایم کے جلسہ عا م میں اگر مسلم لیگ ن کے مو ثر دھڑ ے اور ووٹ کو عزت دو والی تنظیم جس کی سر براہی مر یم صفدر کر رہی ہیں اگر وہ شریک ہوتیں تو جلسہ کامیاب ہو تا کیو نکہ مر یم صفدر خطا بت کے جو ہردکھانے میں کا میاب ہیں اور دوسری با ت یہ ہے کہ مسلم لیگ کا اصل ووٹ بنک بھی اسی دھڑے کے پا س ہے ۔

شہبا ز شریف کو مصا لحت اور مر یم صفدر کو مزا حمت کا علمبر دار سمجھا جا تا ہے ۔ اس جلسہ میں مو لا نا فضل الرحمن اور ان کے مکتبہ فکر کے مدارس کے نو جوا نوں نے بھر پور شر کت کر کے بھرم رکھ لیا ۔ دوسری طر ف لغاری سرداروں نے اپنی قوم کے نوجوانوں کو مذکورہ جلسہ کو کامیاب کرانے کا ٹاسک دیا ہوا تھا اور لغاری قوم کے فرزندوں نے بھی شرکت کر کے اپنے سرداروں کو شر مندگی سے بچا لیا۔

(جاری ہے)

جہاں تک مسلم لیگ ن کے کارکنوں کا تعلق ہے تو وہ بھرپور شر کت نہ کر سکے۔ مقا می طور پر مسلم لیگ ن کے ایک دھڑے جس کی قیا دت سینٹر حافظ عبدلاکریم کے ہا تھوں میں ہے اور وہ لغاری سرداروں سے خفا ہیں انہوں نے بھی مو ثر شرکت نہ کرکے نواز شریف کے مضبوط ساتھی ہونے کا ثبوت دیا۔ جماعت کے اندرونی خلفشار اس وقت واضع ہوگیا جب صدر جلسہ میاں شہبازشریف نے جلسلہ کی کامیابی اور دیگر ترقیاتی کاموں کا سہرا سردار اویس احمد خان لغاری کی مر ہون منت قراردیا اور حافظ عبدالکریم کو کوئی کریڈٹ نہ دیا جس سے اندورنی حلف کی چنگاری کو ہوا دی اور شعلہ جلا کر چلے گئے۔

اب نئے آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ کی ہر سیٹ پر دو امیدوار باہمی دست و گریبان نظر آرہے ہیں۔ لغاری گروپ میں محمو د قادر خان لغاری جو سا بق ایم پی اے رہے ہیں ان کی عدم شرکت نے بھی کئی سوالات پیدا کر دیے ہیں ۔ اگر چہ سردر محمود قا در لغاری کی طرف سے مکمل اتحاد اور جماعت سے مکمل وابستگی کی خبریں بھی شائع ہوئی اور نواز شریف کی صحت کاملہ کیلئے صدقے کے بکروں کی قربانی کی خبریں منظر عام پر آئیں تاہم یہ محض خبر یں ہی تھیں حا لانکہ سر داروں کی سیا سی تاریخ کوئی قا بل رشک نہیں رہی اور کارکنان مسلم لیگ ن میں لغاری سرداروں کی گرفت پر خوش نہیں ہیں ۔

وہ بجا طور پر حق بجا نب ہیں کہ سرداروں کے ہاتھوں ن لیگ کو نقصا ن پہنچ سکتا ہے ۔
تحریک لبیک پاکستان کے لانگ مارچ اور اسلام آباد میں متوقع دھرنے کی وجہ سے امن و امان کی صورت حا ل کشیدہ رہی مختلف مقا مات پر پو لیس پر حملے ہوئے اور کئی جوان شہید ہوئے اور درجنوں زخمی ہیں ۔ بگڑتی صورتحا ل کو دیکھ کر پنجاب کو رینجر ز کے حوالے کر دیا گیا حکومتی وزراء نے تحریک لبیک کے بھارت سے تعلقات کا الزام عا ئد کیا اور اسی تنظیم کو دہشت گر د تنظیم کہہ کر سخت کاروائی کا عندیہ دیا۔

سا تھ ہی مذاکرات کی بات بھی کی جا تی رہی ۔ اسی دوران اچا نک تبد یلی آئی اور اس کا لعدم تنظیم سے مذاکرات کیلئے علماء کو شا مل کیا گیا ۔ مشا ئخ عظام آگے آئے اور مفتی اعظم پا کستان مفتی منیب الرحمن کی سر براہی میں اندرون خا نہ مذا کرات ہوئے جس میں اہم اور مقتدرا داروں نے بھی شرکت کی جس کی تصویریں بھی منظر عا م پر آچکی ہیں ۔ قوم اس وقت حیران اور ششدررہ گئی جب مفتی منیب الرحمن نے ٹی وی پرآکر کہا لبیک والوں نے کبھی یہ مطا لبہ نہیں کیا کہ فرانس کے سفیر کو نکا لا جائے یا سفارت کا نے کو بند کردیا جائے ۔

بند کمروں کے ان اجلا سوں کے نتیجے میں لا ہور سے اسلام ااباد کے تمام راستے کھول دیے گئے اور تحیریک لبیک کے کارکنان وا پس جا نا شروع ہو گئے۔ مبینہ طور پر معا ہدے کے مطا بق اس تنظیم کو کالعد م قرار دینے کا حکم وا پس لے لیا گیا ہے اور اسے سیا ست کے دھارے میں لا نے کا خصو صی اہتمام کیا جا رہا ہے ۔ گر فتار کارکن رہا کر دیے گئے ہیں اور وہ اب سیا سی میدا ن میں بھر پور کر دار ادا کریں گے۔


اس قوم کی خیر یت کی انتہا نہ رہی جب سنا گیا کہ تحریک لبیک پا کستان اور تحریک انصا ف کے در میان سیا سی ہم آہنگی پیدا کی جا رہی ہے اور شنید ہے کہ آئندہ عام انتخا بات میں اگر دونوں جما عتوں کا سیا سی اتحاد نہ بھی ہو سکا تو کسی نہ کسی فارمو لے کے تحت سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے ۔ بیچاری قوم تا حا ل ورطہ حیرت میں ہے کہ بھار ت سے امداد لینے والے کیسے اتنی جلدی محب وطن ہو گئے ان کی تمام خطا ئیں معا ف ہو گئی ہیں ۔

سیا ست کی بسا ط میں مہرے چلا نے والے تحریک لبیک پا کستان کے ووٹ بنک کو تحریک انصا ف کے حق میں استعمال کر نے کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ عا م انتخا بات میں تحریک لبیک پا کستان ایک مو ثر سیا سی جما عت بن کر ابھرے گی اور مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک کا خو ب فا ئدہ اٹھا ئے گی ۔ شطر نج کی اس چا ل پر لو گ اور سیا سی جما عتیں حیران ہیں اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کا انجا م کیا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :