میں آپ کو جانتا ہوں!

بدھ 30 اکتوبر 2019

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے ۔آپ وہی ہو نہ ،جو بچپن میں ہر وقت سکول سے مار کھا کرواپس آرہے ہوتے تھے۔سکول میں عمیر اور کٹورا بلال آپ کا ٹفن چُرا لیتے تھے۔آپ وہی ہو نہ! جسے سکول میں شُور کرنے پر ٹیچر صاحبہ نے ایک مرتبہ سٹور روم میں بند کردیا تھا اورجب ٹیچر نے کہا تھا کہ آج آپ کی چھٹی بند ہے تو آپ بہت روئے تھے ۔ہاں میں آپ کو جانتا ہوں ،میں آپ کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں ۔

آپ وہی ہونہ جو اکثر جاڑے کے موسم میں ایک لمبی سے بے تکی ٹوپی اور ایک پرانی سی جرسی پہنے وادی ِکوئٹہ میں تقویٰ مسجد کے باہر پڑھائی سے بچنے کے لیے گھنے سرسبز شہتوت کے درخت پر چڑھ جایا کرتے تھے۔مجھے یاد آیا ! آپ تو وہی ہو ، جسے بچپن میں گھر سے روزانہ ایک روپیہ چیز کھانے کے لیا ملا کرتا تھا اور آپ سکول کینٹین کے باہر کھڑے ہو کر اپنے ساتھیوں کو رول اور سینڈویچ جیسی چیزیں کھاتے ہوئے بڑی حسرت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

مجھے تو آپ کا وہ وقت بھی یاد ہے جب آپ سکول میں پہلی جماعت میں او ل آئے تھے اورتقریب تقسیم انعامات میں آپ کو یہ سوچ کر غصہ آگیا تھا کہ اول جماعت میں اول پوزیشن تو آپ نے حاصل کی ہے لیکن دوسروں کو انعامات کیوں مل رہے ہیں۔ویسے آپ کی یہ باتیں بھولنے کی تو نہیں ہیں لیکن مجھے یاد ہے جب آپ مسجد میں اذانیں دیا کرتے تھے اورجس دن سکول سے واپسی پر آپ کی پسندیدہ غذاہ سفید ابلے ہوئے چاول تیار ہوتے ،اس دن آپ کے لیے عید کاسماں ہوتا ہے۔

مجھے آپ کا وہ شیشے والا واقعہ بھی بالکل نہیں بھولا ،جب قرآن پاک پڑ ھنے والی باجی کے گھر آپ کو گول شیشہ پسند آگیا تھا اور گھر جاکر آپ نے اس شیشے کی ضد کی تھی اور اس بات کی خبر جب آپ کو قرآن پاک پڑھانے والی استانی تک پہنچی تھی تو انہوں نے وہ شیشہ آپ کو دے دیا تھا اوراس پر آپ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ جب آپ کوئٹہ میں پولیس لائن والے کواٹر میں رہتے وقت اور آپ نے ایک چائنہ والی نئی جوتی خریدی تھی اور اس جوتی کی رفتار کو ماپنے کے لیے آپ پوری کوئٹہ پولیس لائن کی گلیوں میں مسلسل دوڑتے رہے تھے۔

مجھے آپ کی مرحوم باجی کنول بھی یاد ہے ،جن کے گھر آپ کھیلنے جائے کرتے تھے اور جب وہ آپ کو سیمنٹ کی بنی ہوئی اونچی شلف پر بٹھا دیتی تو آپ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ باقی نہ رہتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ جب کنول باجی کو کرنٹ لگا اور جب اُن کے فوت ہونے کی خبر آپ تک پہنچی تو آپ بہت روئے تھے،اور کنول باجی کے بعد آج تک یقینا آپ کوان سے زیادہ شفیق انسان بھی اور کوئی نہیں ملا۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب آپ کے پھپھو زاد بھائیوں نے کھیلنے کے لیے دھاگے والے ٹرک لیے تھے اور آپ خالی ہاتھ جا کر گھنٹوں اُن کے پاس بیٹھے رہتے کہ شاید وہ کچھ وقت کے لیے آپ کو بھی اُن سے کھیلنے دیں۔مجھے آپ کا وہ وقت بھی یاد ہے ،جب پولیس ،چور کھیلتے ہوئے آپ کو ہمیشہ چور بننا پڑتا اور پھر اس کے بعد چوروں والی پٹائی بھی آپ کو برداشت کرنا پڑتی تھی۔

میں آپ کا وہ وقت بھی بالکل نہیں بھولا جب گلی میں بچوں کو تنگ کرنے کے لیے نام بگاڑے گئے تھے تو آپ کا نام اس وقت کی معروف ہندوستانی اداکار ہ کاجل کے نام پرکاجل رکھ دیا گیا اور آپ اس پر بہت شرمندہ ہوتے تھے۔ٹہرو،ٹہرو میں تمھیں تمھارے بچپن کا ایک اور واقعہ بھی سناتا ہوں۔مجھے یاد ہے تیسری جماعت میں جب تمھاری سائنس کی استانی نے تمام بچوں کو ایک فائل بنانے اور اس میں مختلف انواع کے پتے لگانے کا حکم صادر کیا تھا تو تم نے بھی درختوں پر چڑھ کر مختلف اقسام کے پتے توڑ توڑ کر لگائے تھے،لیکن سب سے زیادہ دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہو گئی تھی جب اپنے دوسرے ہم جماعتوں کی دیکھا دیکھی میں اپنی بے رنگ فائل کو خوبصورت بنانے کے لیے تم نے اس پر ایک کارٹون اور اُس کے ہاتھوں میں تین غبارے بنا دیے تھے ۔

تمھارے بے رنگ کارٹون کو دیکھ کر استانی صاحبہ یہ سمجھی تھی کہ شاید یہ کارٹون تم نے اُن پر بنایا ہے اور پھر سزاکے طور پر انھوں نے تمھیں مرغا بنا کر خوب پٹائی کی تھی اور تم اس دن بہت دیر تک روتے رہے تھے۔مجھے تمھارا وہ دن بھی یاد ہے جب استانی نوشین صاحبہ نے پھول توڑتے ہوئے تمھیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا اور تم سے بیس روپے روپے جرمانہ وصول کرنے کے بعد جرمانے کی باقی رقم نہ ہونے پر تمھیں جب منہ پرزور دار تھپڑ لگایا ، تو تم اپنا توازن تک برقرار نہ رکھ پائے تھے اور دھڑام سے نیچے گر گئے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ تمھارے سکول کی بس جسے تم سب بچے پیلا لڈو کہا کرتے تھے ،اس میں تم ہمیشہ کھڑے ہو کر سفر کیا کرتے تھے اور پرائمری لیول تک تمھیں کبھی بھی اُس میں سفر کے لیے بیٹھنے کی جگہ تک نصیب نہ ہوئی تھی۔مجھے یاد ہے کہ جب تم ون کلاس میں تھے اورتم اور تمھارے ساتھی صبح صبح سکول کے لیے کینٹ سے نکلتے تو کسی بھی گاڑی کو ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا اشارہ کرتے تو تقریباَ ،تقریبا ،گاڑی والے رُک جاتے اور کینٹ سے پولیس لائن تک وہ انجان گاڑی والے تمھیں اور تمھارے ساتھیوں کوضرور پہنچا دیتے ۔

مجھے تمھارا وہ دوست طفیل بھی یاد ہے جس کے ابو کی سرکاری گاڑی میں گھر جانے کے لیے تمھیں طفیل کو اکثر اپنا چینی والا پراٹھایا کوئی نہ کوئی چیز بطور شوت روز کھلانا پڑتی تھی،اور جس دن تم اسے کچھ نہ کھلاتے ،اس دن تمھیں پیدل یا پیلے لڈو (سکول بس) پر ذلیل ہو کر گھر آنا پرتا تھا۔مجھے معلوم ہے کہ تم نے مجھے ابھی تک نہیں پہچانا۔تم مجھے نہیں جانتے ،لیکن میں تمھیں اچھی طرح سے جانتا ہوں۔

تم احمد ہی ہو ۔تم وہ احمد ہو جو بچپن میں کوئٹہ میں محلے کی لڑکیوں سے مل کر گڑیا ،گڑیا کھیلا کرتاتھا ۔5روپے سے خریدی ہوئی گڑیا کے سر کے بال نکل جانے پر سوئی سے انہیں نئے بال لگاتا۔ اپنی امی سے ایک روپیہ تین سوالوں کا لے کر انہیں یاد کرتا۔خوبانی اور سیب کے درخت پراپنے ساتھیوں کے کے ساتھ مل کر پتھر مار کر زمین پر گرنے والے سیب چوری اٹھاکر بھاگ جاتا تھا اور اکثر پکڑا بھی جاتا۔اوئے غافل احمد مجھے پہچانوں ۔میں ہوں کوئٹہ ۔میں ہوں تمھارا پرانا دوست ،تمھارے بچپن سے لے کر تمھارے بارہ سالوں تک کا ساتھی۔احمد !میں تمھیں جانتا ہو! میں تمھیں اچھی طر ح سے پہچانتا ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :