آدمی سے ڈرتے ہو،آدمی تو تم بھی ہو ،آدمی تو ہم بھی ہیں

پیر 10 فروری 2020

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

اردو ادب میںآ زاد نظم کے روح ِروا شاعر ن۔م راشد صاحب کی نظم کا ایک مصرعہ بے ساختہ یادوں کے دریچے میں ابھرا۔پہلے ذہن میں آئی کہ بھلا یہ کیسا مصرعہ ہوا،یہ کیا لکھ دیا شاعر صاحب نے ؟۔کافی غور فکر کے بعد مفہوم سمجھ میں آیا اور ایک ہی لمحے میں انسانی تاریخ کے تمام واقعات کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چلنے لگے۔تاریخ کے آئینے میں آدمی کی پستی اور بلندی کا عکس اُبھر ،اُبھر آنکھوں کے سامنے ناچنے لگا۔

ایک لمحہ کو سوچا کہ آدمی تو واقعی بے نظیر ہے ،لیکن جونہی آدمی کی عظمت اور بڑائی کا خیال آیا تو عین اُسی لمحے آدمی کا بھیانک رُوپ آئینے میں میرا ہی عکس بن کر سامنے آگیا۔آدمی کا یہ روپ دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے،میری روح تک یہ روپ دیکھ کر لرز اٹھی۔،مجھے خود اپنا وجود تک بھی ناگوار محسوس ہونے لگااور فورا ہی میری زبان سے ایک شعر بے ساختہ نکل پڑا:
 لفظ نکلے ہیں ، میرے نطق سے نالاں ہو کر
 اتنا شرمندہ ہوں ، اس دور کا انسان ہو کر
تاریخ کی سیاہ کتابوں میں آدمی کی سیاہ تاریخ پڑھ کر آدمی کے ظلم کی سیاہی سے آسمان تک مجھے سیاہ محسوس ہونے لگا۔

(جاری ہے)

وہ وقت بھی تاریخ کے سیاہ صفحات سے نکل کر میرے سامنے آکھڑا ہوا جب قابیل ،ہابیل کو قتل کر رہا تھا،جب ایک شخص خون کا دریا بہاتے ہوئے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا رہا تھا۔جب ایک شخص تخت کے لیے اپنے مولد کو قید میں ڈال کر اس کی آنکھوں میں سلاخیں پیوست کروا رہا ہے اور اپنے بھائیوں کو سولی پر لٹکا کر اور ان کی گردنیں کاٹ کاٹ کر اپنے تخت کے کنارے سجا رہا ہے۔

آدمی کی تاریخ کا وہ باب پڑھ کربھی میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے جب آدمی نمرود بن کر خدائی کا دعوی کر بیٹھتا ہے،قارون بن کرخود کو ناقابلِ تسخیر قرار دیتا ہے،فرعون بن کر خود کو اس دنیا کا مالک سمجھ لیتا ہے،سکندر بن کر دنیا کو فتح کرنے نکل پڑتا ہے،چنگیز ،اکبر، تیمور،بن کر ظلم کی ہر حد کو ڈھا دیتا ہے۔
بطور آدمی میرا سر اس وقت بھی شرم سے جھک جاتا ہے جب میں یزید کہلاتاہوں،جب میں ہلاکوں خان کے نام سے پُکارا جاتا ہوں،جب میں سلمان بن عبد الملک کہلاتا ہوں،جب میں ابو جہل کہلاتا ہوں۔

جب میں شہرت اور دولت کے زعم میں مبتلا ہو کر قیصر و کسری کہلاتا ہوں۔میرا سر اس وقت بھی شرم سے جھک جاتا ہے جب میں حجاج بن یوسف کی شناخت اختیار کرتا ہوں،جب میں شاہ جہاں کہلاتا ہوں،جب میں جہانگیر کہلاتا ہوں،جب میں البرٹ آئن سٹائن اور اوپن ہائیمر کی شکل میں ایٹم بم کا موجد بن کر کروڑوں معصوم جانوں پر ظلم کا باعث بنتا ہوں۔میں اس وقت بھی اپنے آدمی ہونے پر شرمسار ہو جاتا ہوں جب میں مجھے میکائل کلاشنکوف بلا یا جاتا ہے ۔

بطور آدمی مجھے اپنی شناخت پر اس وقت بھی شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے جب میں الفریڈ نوبل بنتا ہوں،جب میں کمیران لوگان بنتا ہوں۔
مجھے اس وقت بھی اپنے آدمی ہونے سے گھن آتی ہے جب میں مسجدوں میں قاری شمس بن جاتا ہوں ،جب میں نعت خواں عمران علی کی شکل میں آدمی کہلاتا ہوں۔جب میں مصنف کی کرسی پر بیٹھ کر جسٹس نسیم حسن بنتا ہوں،جسٹس مولوی مشتاق بنتا ہوں،میری شرمندگی اس وقت بھی کسی قدر بڑھ جاتی ہے جب میں سولین ڈکٹیٹر ذولفقار بھٹو بنتا ہوں،مجیب الرحمن بنتا ہوں،جنرل یحی بنتا ہوں،جنرل اسلم نیازی ،جنر ضیا الحق،جنرل مشرف بن جاتا ہوں۔

میرا سر اس وقت بھی شرم سے جھک جاتا ہے ،جب میں نوازشریف اور عمران خان کا روپ دھارتا ہوں۔میری شرم کی اس وقت بھی کوئی انتہاء نہیں رہتی جب میں اپنے فرائض کو بھلا دینے والا فاروق لغاری،سلمان تاثیر اور ممتاز قادری بن جاتا ہوں،میں بطور آدمی اس وقت بھی شرمسار ہوتا ہوں،جب میں کالم نگار،استاد ،شاگرد ،شاعر،وکیل ،مسیحا ، کے روپ میں احمد خان ُلنڈ کہلاتا ہوں۔

آج میں ببانگ دہلِ یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں آدمی ہی آدمی کا گناہ گار ہوں۔بطور آدمی روز ازل سے لے کر اب تک آدمی کی تباہی کا باعث بھی میں آدمی ہی ہوں۔آدمی کا روپ دھار کر میں نے ہی آدمی کو کبھی خدا اور بھگوان کے نام پر کاٹا ہے تو کبھی رنگ و نسل و قوم کے نام پر کاٹا ۔کبھی میلاد اور مجلس کے نام پر بطور آدمی ،آدمی کو لتاڑا تو کبھی، سرائیکی، مہاجر،پختون اور سندھی کے نام پر گھرں کے گھر اجاڑ کر رکھ دیے ۔

کبھی بطور آدمی میں نے بل کلنٹن،گوربا چوف ،کبھی جارج بش ،اوباما، تو کبھی نتن یاہو اور ٹرمپ اور مودی کی صورت میں ،کبھی ماوزے تنگ،کبھی خمینی اور کبھی شاہ سلمان کے نام سے اور کبھی اسامہ بن لادن،کبھی ملا عمر اور ملا فضل اللہ اور بیت اللہ مسعود کے نام سے آدمی پر قیامت ڈھائی۔بطور آدمی ،آدمی کی تاریخ پر سیاہی ملنے کا ذمہ دار بھی میں آدمی ہی رہا ہوں۔

ہاں! آج میں چیخ ،چیخ کے کہتا ہوں،مجھے آدمی ہو کہ آدمی سے ڈر لگتا ہے۔مجھے ڈر لگتا ہے۔مجھے اپنے آدمی ہونے سے ڈر لگتا ہے۔میں ڈرتا ہوں،ہاں! میں ڈرتا ہوں
 اے آسماں تیرے خدا کا نہیں ہے خوف ہمیں 
 ڈرتے ہیں اے زمیں ، تیرے آدمی سے ہم 
مندرجہ بالا عنوان پر یونیورسٹی آف ایجوکیشن ڈیرہ غازیخان میں مباحثے کا انعقاد کروانے پر راقم ہیڈ آف انگلش ڈیپارٹمنٹ محترمہ عظمی صادق صاحبہ ،میڈم وردہ صاحبہ اور دعاشمس صاحبہ اور عاقب شہزاد صاحب کا ممنون ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :