یوم ِبے عزتی

جمعرات 4 مارچ 2021

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

آج صبح ِبیدار سے ہی کانوں میں کچھ عجیب سے حروف کھٹکھٹا رہے تھے،اول گمان یہی ہواکہ شاید کسی وجہ سے ٹی وی خود بخود چل پڑا ہے یا صبح کے گیارہ ہوگئے اور ہمارے نہ جاگنے پر ہمسائیوں کی طرف سے خراج تحسین کی غرض سے حسب روایت گانے چلا کر ہمیں جگانے کی سعی کی جارہی ہے۔ابھی نیم واہ آنکھوں سے قیاس میں محو تھے کہ ایک گرج دار آواز پھر سے اُبھری"شرم نہیں آتی ،لوگوں کے کتے بھی اٹھ گئے اور تم ابھی تک خواب غفلت میں بستر میں گھسے ہوئے ہو، اف اللہ یہ کیا حشر کیا ہوا ہے تم نے اپنے کمرے کا ،یہ برتن یہاں کیا کررہے ہیں؟" اس سے قبل کہ بندہ کچھ جواب دیتا اگلے لمحے ایک زناٹے دار تھپڑ موصول ہوا اور نیند تو ایک طرف بندہ کے چودہ طبق تک روشن ہوگئے۔


بستر سے اٹھنے کے ساتھ ہی یوں بندہ کے یوم بے عزتی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

(جاری ہے)

ویسے ناقدین اس پر بول سکتے ہیں کہ آخر ہماری عزت تھی کہاں جو ہم یوم بے عزتی منائیں؟ لیکن اس پر ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے عزت ہونے لیے عزت ہونا لازمی امر تھوڑا ہی ہے۔ یوم بے عزتی منانے کے سلسلے میں کچھ معاون تو ہمارے اغیار بھی ہیں لیکن جو رہی سہی کسر باقی تھی وہ ہم نے اپنے اعمالوں کے تحت پوری کرلی ۔

بستر سے بے عزت ہو کر نکلنے کے بعد ہم حمام میں پہنچے اورنہانے کے دوران پہلے پانی کے ختم ہونے اور صابن کے فلش میں گرنے سے مزیدبے عزتی کا آغاز ہوا۔خدا خدا کرکے والدہ صاحبہ کی نصیحتوں اور والد صاحب کے فرمان ساتھ لے کر یونیورسٹی کی جانب روانہ ہوئے اور یونیورسٹی پہنچنے سے قبل ہی خود کواپنے 99ماڈل موٹرسائیکل کی نافرمانی کے سبب روڈ پر اوندھے منہ قیلولہ کرتے ہوئے پایا۔


یوم بے عزتی کا اختتام بھلا دن کے اس پہر کہاں ہونے والا تھابلکہ بقول اقبال ابھی تو "مقامات آہو فغاں"اور بھی آنے والے تھے۔یونیورسٹی کے دروازے پر سب سے پہلا سامنا تو انہی میڈم صاحبہ سے ہوگیا ،جن کے پریڈ سے آج بندہ مفرور رہا تھا ۔میڈم صاحبہ یوں تو خاموش رہیں لیکن ایک طائرانہ غضبناک نظر سے طالب علم کی مفروریت پر فل سٹاپ لگ گیا۔
یوم بے عزتی کے دوسرے مرحلے کاآغاز یونیورسٹی میں داخلے سے ہوا اور بندہ جی بھر کرسیکیورٹی گارڈ صاحبان سے لے کر ٹیچر صاحبان اور ہم جماعت ساتھیوں سے لے کراپنے ڈیپارٹمنٹ کی HODصاحبہ سے چھٹی کے اوقات کارتک خوب بے عزت ہوتا رہا ،جس پر اپنی ہی حالت پر میر تقی #میر# کا مصرعہ بے ساختہ یاد آیا ،جسے اپنے حالات کے تناظر میں تھوڑی سی ترمیم کے پیش کر رہا ہے:
پھرتے    ہیں میر خوار ، کوئی پوچھتا بھی نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
مندرجہ بالا مصرعہ کے باوجود بات تو آخر ناقدین کے اسی سوال کی طرف ہی آجاتی ہے کہ پہلے عزت توہو ،بے عزتی کے لیے۔

ہمارے یوم بے عزتی کا سورج تو اب بھی غروب نہیں ہوا اور اب بھی الحمد اللہ جاری و ساری ہے لیکن مندرجہ بالا تمام معاملے کا ہمارے لیے توصرف ایک خوش کن پہلو ہے اور وہ فقط ہمارا ڈھیٹ ہونا ہے۔ چچاغالب #نے شاید ہمارے لیے ہی کہاتھاکہ:
 رنج سے خُوگر ہو ا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑی اتنی کہ آساں ہو گئی
ناقدین مندرجہ بالا شعر میں ہمارے لیے "رنج " کی جگہ لفظ "بے عزتی"کا اضافہ فرمائیں اور ہماری بے عزتی سے بھرپور لطف اندوز ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :