خدا حافظ

جمعرات 1 جولائی 2021

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

گردشِ روز و شب سے وقت بدلتا ہے اور گزرا وقت اکثر و بیشتر انمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ماضی کو کریدنے کی سعی قدرت نے انسان کے خمیر میں بدرجہ اتم راسخ کردی ہے اوردیگر حیوانوں میں سے انسان میں ہی یہ قدر پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے ماضی کو یاد رکھتا ہے۔یونیورسٹی آف ایجوکیشن ڈیرہ غازیخان میں گزرے گزشتہ چارسال بھی ایسے ہی لمحات سے بھرپور رہے ہیں جو کہ ہر لحاظ سے ناقابل فرموش ہیں۔


اول تو عقل و منطق روز ِروشن کی طرح عیاں ہونے کے باوجود بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ واقعی لڑکپن سے جوانی تک یونیورسٹی پہنچنے کے خواب کو چار سال یونیورسٹی میں بیتِ چکے ہیں۔آج بھی نظر کے سامنے وہ لمحات عکس بن کر ابھر رہے ہیں ،جب داخلہ کے لیے لسٹ میں نام ڈھونڈے کی دیوانہ وار جستجو جاری تھی۔

(جاری ہے)

جب اول روز میڈم تحریم شبیر کو انٹروڈکشن دیا جا رہا ہے،جب کمرہ جماعت میں سی آر شپ کے لیے یاسر کے مدمقابل ہوا،جب سنئیرز ریگنگ کے لیے آئے۔

جب جان بوجھ کر اساتذہ کو ناجائز بے تکے سوالات سے تنگ کرنے کی سعی ہوتی، جب میڈم اقراء صاحبہ روز ،روٹھ جاتی اور انھیں منانا پڑتا، جب اردو کے پیپر میں میں لطیفے لکھ آتے،جب سر امین صاحب کے پیپر میں نقل لگاتے، جب اسائنمنٹس کے لیے ہم جماعتوں کے اجتماعات ہوتے ،جب اسائنمٹس اور پریزنٹیشن میں ہم جماعت لڑکوں اور لڑکیوں کے چہروں پر خوف کے مارے ہوائیاں اڑتے اور ہاتھ پاؤں کانپتے دیکھتے،جب میڈم وردہ صاحبہ کے دلچسپی سے بھرپور لیکچرز ہوتے اور اوٹ پٹانگ قسم کی اسائنمنٹس دی جاتی ،جب میڈ م اقصی اور میڈم تہمینہ صاحبہ بنچوں پر بطور سزا ٹھہرا دیتی اور میڈم سحرش صاحبہ فائن وصول کرکے پارٹی کروا دیتی۔

جب عقیل شاہ صاحب لیکچر کے بعد چائے پلواتے ،جب سر ممتاز صاحب کا لیکچر بھی سروں کے اوپر سے گزرتا،جب میڈم عبیرہ صاحبہ تیز طرار انگریزی لہجے میں پڑھاتی اور کچھ نہ سمجھ میں آنے کے باوجود بھی ہمیشہ "یس ،یس"کرنا پڑتا ،ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ میڈم عظمی صاحبہ اپنے شفیق لہجے میں جماعت سے شکوہ کنا ں رہتی اور معاشرتی تنوع اورعصر حاضر پر سبق آموز نصحتیں کرتی ۔

جب سر نعیم امین صاحب سے ادبی حال احوال ہوتا۔
مندرجہ بالا تما م حالات و اقعات کے علاوہ دیگر ہم جماعتوں کی شرارتیں اورواقعات بھی قابل محو نہیں ،خصوصاَباجی سدرہ جنید جیسی عظیم ہم جماعت کاجی آر بننا ، باجی عائشہ صادق کی شرارتیں، باجی مائدہ سعید کے جھگڑے اور آہیں،باجی رابعہ طاہر کی پڑھائی سے لگن،باجی اقراء فاطمہ کا سنجیدہ پن،باجی حناء اور باجی عاطقہ کی پرُ اسرار خاموشی،محترمہ عائشہ وہاب صاحبہ کا غصہ اور تھوڑا ضدی پن ،عاقب بھائی کے بے محل اشعار ،نعمت بھائی کے پانچ منٹ ،ارشد رسول کی معصومیت،عدنان تونسوی کا شریفانہ پن،مدثر کلیم کی فسادیاں،نعمان کے چٹکلے،فہد برمانی کا مئودب پن ،یاسر بھائی اور فہد سلیم بھائی کی ر قابت اور تعاون بھی قابل ذکر ہے۔

اس دوران راقم کا اپنا اعمال نامہ بھی کچھ خاص متاثر کن نہیں رہا۔بقول فیض:
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناؤک دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت
اس عشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
یہ چار سال کب گزرے اور کیسے گزرے ْیہ تک معلوم نہ ہوا اور اختتامی لمحات کی روداد بیان کرتے اب تلک انگلیاں تھرتھرا رہی ہے،یادوں کے چراغ کی لو ٹمٹما رہی ہے،گمان یقین سے قاصر ہے کہ کیسا سنہرا ور کیسے گزرگیا اور کان و کان خبر تک نہ ہوئی ۔

دل اب بھی گھبرا رہا ہے،سانسیں اب بھی ڈھلک رہی ہیں ۔لیکن یہ قانون فطرت ہے اوریہ اٹل ہے اور اسی نشیب و فراز کانام زندگی ہے۔
اختتام سے قبل میں تمام ہم جماعتوں اور جملہ انتظامیہ و تدریسی عملے سے تہہ دل معذرت خواہ اور شرمندہ ہوں جن کودانستہ یا غیر دانستہ طور پر مجھ سے آزار پہنچا ہو،بے وقوفی ،جلدبازی اور غیر سنجیدہ پن سے کئے گئے چند اقدامات پر مجھے دلی افسوس ہے ،کیونکہ یہ نہ چاہا تھا میں نے، کہ یوں ہو جائے ۔

اس کے ساتھ میں اپنی چند ایک غلطیوں پر قائم و دائم بھی ہوں ۔میں ایسے تما م افراد کا بھی مشکور ہوں جنھوں نے ہمیشہ اصلاح کا فریضہ انجام دیا اور ہمیشہ ہر حالات میں بھرپور ساتھ دیا،جن میں یاسر نواز، عدنان،جاوید،فہد،طاہر،تسکین ،نعمان قابل ذکر ہیں۔اختتامی غزل اپنے ہی نام:
وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئی
 وہ فاصلے بھی گئے اب وہ قربتیں بھی گئی
لبھا لیا ہے بہت ، دل کو رسم ِ د نیا نے
ستم گروں سے ستم کی شکایتیں بھی گئی
غرورِ کج کلہی جن کے دم سے قائم تھا
وہ جرائتیں بھی گئیں ، وہ جسارتیں بھی گئی
ہجوم سرو سمن ہے نہ سیل نکہت و رنگ
وہ قامتیں بھی گئی ، وہ قیامتیں بھی گئی
اللہ تعالیٰ تما م ہم جماعتوں کو مستقبل میں کامیابی و کامرانیا ں عطا فرمائے اور سب کا حامی و ناصر ہو۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :