"غازی یونیورسٹی میں بہتی الٹی گنگا"

پیر 13 دسمبر 2021

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

کسی بھی معاشرے میں تعلیمی ادارے مقدس ترین مقامات ہوتے ہیں ،اور مستقبل کی بنیاد یں یہاں سے پروان چڑ ھتی ہے۔ روزازل سے لے کر ابد تک تعلیمی اداروں کی حیثیت مسلم رہی ہے اور تعلیمی ادروں کاادب اور احترام علم کے ہر متلاشی کے لیے لازم ملزم ہے اور اس ادب و احترام کے بغیر علم کے حر ف ِاول "ع" تک بھی نہیں پہنچا جاسکتالیکن بعض اوقات چند افراد کی انتظامی نا اہلی کے سبب اداروں کی ساکھ پر بھی حرف اٹھنے لگتے ہیں اور یقیناَ مایوسی بھی پیدا ہوتی ہے۔


غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازیخان جنوبی پنجاب کی ایک نامور درسگاہ ہے او ر اپنے تعمیری مدارج کے عروج پر ہے اور دن بدن خوبصورت عمارات کی تعمیرات کی بدولت مزید جاذب نظر بنتی جا رہی ہے اور غازی یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر طفیل صاحب بھی یقیناَ ایک تجربہ کار محنتی اور بھلے انسان ہیں لیکن یونیورسٹی کا روایتی دفتری عملہ مسلسل انھیں ناکام کرنے کے در پے ہیں۔

(جاری ہے)


غازی یونیورسٹی کی جاذب نظر عمارات اور سوشل میڈیا پر تشہیر کو دیکھ کر پھر سے زمانہ طالب علمی کی بھرپور یاد آئی بقول فیض #"پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام " لیکن اس بزم میں جانے کا یہ تصور زیادہ دیر تک قائم نہ رہ پایا ۔بندہ نے تیسری ماسٹر ڈگری کے لیے اپلائی کیا اور شومئی قسمت کہ ادبی مضمون میں ماسٹر ڈگری میں داخلے میں بندہ کا نام میرٹ پر دوسرے نمبر پر آگیا ،جس پر بندہ خوشی سے پھولے نہ سماپارہا تھا لیکن اصل آزمائش تو اب شروع ہونے والی تھی ۔

اس کے بعدیونیورسٹی کے انتظامی عملے، سیکورٹی سٹاف،کلرک بادشاہ صاحبان کی طرف سے جو رویہ دیکھنا پڑا وہ یقیناَ تکلیف تھا اور داخلے کی حسرت کے باوجود بندہ کو بد دل ہو کر داخلے کا خیال تک دل سے نکالنا پڑا ۔
ادارے کسی بھی معاشرے کی تہذیب و تمدن کا عکاس ہوتے ہیں اور درسگاہوں سے ہی انسان تہذیب و تمدن ،معاشرت اور اخلاقیات سیکھتا ہے، لیکن افسوس کہ جہاں ایک درسگاہ کے ادبی مضمون کے ڈیپارٹمنٹ میں اس قدر بے حسی ،لاپرواہی اور غیر ذمہ داری اور بدتمیزی کا عنصر موجود ہو،وہاں معاشرے کی روز بروز ابتر ہوتی حالات کا ذمہ دار کسے ٹھہرا یا جائے؟ اگر یہ ہتک آمیز، رعونت ،بے حسی اور بدتمیزی سے بھرپور رویہ کسی سول ادارے عدالت ،پولیس یاواپڈا یا کسی طاقتور ادارے کی طرف سے ہو، تو یقیناَ اس کی کوئی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے لیکن اہل قلم اور اسے تراشنے والوں اور ایک علمی درسگاہ سے ایسے رویے کا سامنے آنا معاشرے کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے اور کسی توجیہ سے ماورا ہے۔


اچھے برے لوگ ہر ادارے میں موجود ہوتے ہیں اور ان کا تناسب کم ہوتا اور بڑھتا رہتا ہے لیکن ایک تعلیمی درسگاہ جو کہ مستقبل کی معمارہو، اس میں ایسے رویوں کی موجودگی یقیناَ باعث فکر ہے۔ جہاں ایک طرف عمارات کی تعمیرات اور یونیورسٹی کی تزین آرائش پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے، وہاں ضرورت اس امر کی ہے ادارے میں تعلیم دوست پالیساں بنا کر علم سے دوستی اور علم پروری کا ماحول ترتیب دیاجائے نہ کہ عملے کی بے حسی ،ہتک آمیزی ،رعونت اور بدتمیزی کے سبب لوگوں کو مایوس ہو کر داخلے تک کا خیال جبراَ دل سے مٹانا پڑے ،بصورت دیگر یہ معاشرہ پہلے ہی تہذیب سے عاری کاغذی پیراہن میں ملبوس ہے اور علم کی لُو پہلے ہی مسلسل تھر تھرا رہی ہے۔

ورنہ یہ الٹی گنگا یونہی بہتی رہے گی۔
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کاگلہ کرے کوئی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :