" خدارا اب تو تعلیم سے کھلواڑ بند کر دیں"

جمعرات 14 مئی 2020

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

یوں تو الحمداللہ پہلے ہی تعلیمی میدان میں مملکت خدا د تعلیمی زوال کی جانب گامزن تھی ،لیکن رہی سہی کسر اب کرونا وائرس اور اس کے بعد اختیار کی گئی حکومتی پالیسوں نے پوری کردی۔ہماری خود ساختہ ریاست مدینہ کے حکمران جو ماشاء اللہ سے یو ٹرن لینے میں اپنا کوئی ثانی رکھتے اورروز کیمروں کے سامنے نمودار ہوتے ہیں اور روز کوئی نیا شوشہ چھوڑ کر اگلے روز کے لیے پھر سے غائب ہو جاتے ہیں انھوں نے بھی بھر پور چٹکلوں کے ذریعے خوب میدان سجائے رکھا۔

تعلیم کے ساتھ حکومتی کھلواڑ کی تاریخ بھی قیام پاکستان کی ہم عصر ہے۔پاکستان میں تعلیمی کے نظام کے ساتھ جس قدر کھلواڑ ہوئے شاید ہی دنیا کے کسی مہذب ممالک میں رونما ہوئے ہوں۔موجودہ صورتحال میں جہاں پوری دنیا کورونا وائرس کے سبب متاثرہوئی اور تمام ممالک نے محتاط انداز میں تعلیمی نظام پر کام کیا ،وہاں پاکستان میں نئی تعلیمی پالیسی ایک مذاق بن کر رہ گئی۔

(جاری ہے)


 خود نمائی کے شوقین وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود ،صوبائی وزیر تعلیم پنجاب مراد راس اور حکومت کے گھر کی لونڈی ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کردارخود حکومت اور طلباء کے لیے بھی درد سر بن گیا۔سکولوں کے متعلق پالیسی جاری کرتے ہوئے پہلے طلباء کو بے ڈھنگے اندازمیں پروموٹ کرنے کی نوید سنائی گئی ،بعد ازاں اپنے ہی فیصلے پر مختلف آراء بیان کرکے ہیجان انگیز اور نفسیاتی کشمش کی ناقابل یقین فضا پیدا کی گئی۔

طلباء کو اگلی جماعت میں بغیر امتحان پروموٹ کرنے پر تمام صوبوں تک کو اعتماد میں نہ لیا گیا اور صوبہ سندھ وفاقی حکومت کی پالیسی کے بر خلاف امتحانات کا مرحلہ بر قرار رکھا،جو پوری دنیامیں مذاق بن گیا کہ ایک ہی ریاست میں ایک صوبے کے طلباء تو امتحان دے کر کامیاب یا ناکام قرار پائیں گے توباقی صوبے بغیر امتحان لیے ہی طلباء کو کامیاب دے دینگے،جو کہ خود ایک مضحکہ خیز عمل ہوگا۔


سکول اور کالجوں کے بعد بات کچھ یونیورسٹی کے طلباء اور ان کے مستقبل سے کھلواڑ کی۔پہلی حکومتی پالیسی میں اول تو یونیورسٹیوں کے متعلق کوئی واضع پالیسی بیان ہی نہیں کی گئی۔یونیورسٹیوں کو آن لائن کلاسزکے انعقاد کا درس دے کر ذمہ داران پس پشت چلے گئے۔پھر کہیں سے ارباب اختیار کو خیال آیا کہ نہیں آن لائن کلاسز میں بھی کافی نقائص موجود ہیں اور پھر کٹھ پتلی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے آن لائن کلاسز کو فوری طور پر رکوا دیا ،کچھ عرصے کی کشمکش کے بعد یوٹرن ماسٹرز کو پھر نہ جانے کیا خیال آیا کہ اچانک ہی پھر سے آن لائن کلاسز کا آغاز کر دیا گیا اور نجی ایپ کے ذریعے بے ڈھنگے انداز میں پڑھانے کا بے ڈھنگا طریقہ اختیار کیا گیا۔


دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آن لائن کلاسز کی داغ بیل کے ذریعے زمینی حقائق سے بے خبر ہو کر طلباء کو زیور ِتعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ فی الحال تک تو بری طرح سے ناکام رہی۔اول تو 80%اساتذہ اکرام اور طلباء کو اس آن لائن سسٹم اور انٹر نیٹ تک آسان رسائی ہی حاصل نہ تھی۔آئن لائن کلاسز شروع ہونے کے بعد اگلا مرحلہ تدریس کا عمل تھا ،جس میں بیشتر اساتذہ اکرام پہلے تو کیمروں کے سامنے آنے سے جھجکتے رہے اور جو اساتذہ اکرام سامنے آئے بھی ان کا طریقہ تدریس بھی کسی بھی طور پر مثالی اور پیشہ وارانہ نہ تھا اور بیشتر یونیورسٹیوں کے طلباء کو براہ راست لیکچر اور دوران لیکچربراہ راست سوالات یا مباحثہ کرنے تک رسائی بھی نہ دی گئی ،جس کے سبب یقینی طور طلباء کی دلچسپی بھی واضع طور پر تدریسی عمل میں کم رہی۔


تعلیم نظام کامیاب معاشرے کا اہم ترین ستون ہوتاہے او ر تاریخ شاہد ہے کہ تعلیمی نظام کی ترقی کے بغیر آج تک کسی بھی معاشرے نے نہ تو ماضی میں کبھی ترقی کی ہے اور نہ ہی کبھی مستقبل میں ترقی کرسکتا ہے۔دنیاجہان کے ترقی اور مہذب معاشروں کے برعکس ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ہمارے ہاں حکومتی مہربانی سے پریس اور پبلشروں کا روزی روٹی کے چلانے کی خاطر ہر سال کورس تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

کبھی کورس انگلش میڈیم تو کبھی اردو میڈیم ہے۔کبھی پریکٹیکل کا عملی نظام رائج کیا جاتا ہے تو کبھی تھیوری سسٹم کا نظام رائج کیا جاتا ہے۔کبھی نہم دہم اور گیارھویں ،بارھویں جماعت کے امتحانات کمپوزٹ سسٹم کے تحت منعقد کئے جاتے ہیں تو کبھی سالانہ بنیادوں پرامتحانات کا انعقاد ہوتا ہے۔فنڈنگ کے حصول اور شوبازی کی خاطر کبھی امتحانات کا سالانہ سسٹم رائج ہوتاہے تو کبھی یک جنبش سمسٹر سسٹم جیسا ناقص نظام رائج ہوتا ہے۔

کبھی بی اے ،بی ایس سی اور ایم اے ،ایم ایس سی کو ختم کیا جاتا ہے تو کبھی قانون کی تعلیم ایل ایل بی کا دورانیہ بڑھا دیا جاتا ہے۔
حکومتی تعلیمی پالیسوں کو دیکھتے ہوئے حکومتی نظام تعلیم کی کوئی بھی کُل سیدھی معلوم نہیں ہوتی۔پاکستان میں ہر حکومت نے نظام تعلیم کو تجربوں کی بھینٹ چڑھا کر اس نظام کی بربادی میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور تعلیمی نظام کے ساتھ یہ اندوہناک کھیل آج بھی جاری و ساری ہے۔

اس دور جدید میں مملکت خدادادِ پاکستان میں تعلیم کے لیے قومی بجٹ کا صرف 0.5فیصد حصہ ہی مختص ہے۔ ہمارا تعلیم نظام ہمارا خود سے انتقام بن چکا ہے۔خدا را اب بس کردیں،خود کے لیے ،خود کی بقا کے لیے،اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے نظام تعلیم پر رحم فرمائیں ،بصورت دیگر ہماری آنے والی نسلیں اور آنے وقت ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا اور تاریخ شاہد کہ وقت کا انتقام ہمیشہ بہت ہی اندوہناک رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :