”آواز دوست“

پیر 20 اپریل 2020

Ahmed Khan

احمد خان

گئے دنوں ایک جا ننے والے بزرگ کا فون آیا ، فر ما نے لگے بر خوردار کو ئی اچھے مزاج کا بند ہ چا ہیے منہ مانگے دام دو ں گا ، عر ض کیا کس ہنر میں یکتا ہو ، جواباً فر ما یا اکیلے پن کا شکار ہو ں بس چار سے پانچ گھنٹے مجھ سے باتیں کر یں ، حیران ہو تے ہو ئے عرض کیا آپ کا تو اچھا بھلا خاندان ہے ، پھر آپ اکیلے پن کا شکار کیو نکر ہیں ، بو لے دوفر زند ارجمند ہیں جو بیرون ممالک ہمیشہ کے لیے آباد ہو چکے ، بیٹیا ں اپنی اپنی گھر وں کی ذمہ دار یا ں نبھا رہی ہیں ، سچ پو چھیے تو ہمارے ہر دوسرے فر د کا یہی نو حہ ہے ، بھر ے پھر ے گھروالو ں کو تنہا ئی کا رونا روتے دیکھا ہے ، ہر دوسے شخص کی فر یاد یہی کہ ” ہم راز دلی “ نہیں ملتا ، ہر دوسرے فر د کی زباں پر یہی سوال رقصاں ہے کہ کو ئی ایسا نہیں کہ جس سے اپنے دل کے دکھ سکھ کا اظہار کر سکو ں ، کسی کے سامنے اپنا دل چیر کے رکھ سکو ں ، کسی کے سامنے اپنے ارماں اپنے تشنہ خواہشوں کا رونا رو سکوں ، یہ جملہ تو زبان و زد عام ہے کہ آج کے دور میں پر خلوص دوست کا ملنا محال ہے ، آخر بند ہ جا ئے تو جا ئے کہا ں ، بصد احترام ہما را اس نکتہ سے شد ید اختلاف ہے ، بجا کہ نفسا نفسی کا اور چھینا چھپٹی کا دور ہے ، اس مادیت پر ست دور میں بھی مگر ایسے نیک ، جی دار اور مخلص انسان مو جود ہیں جو بغیر کسی لالچ اور کسی امید کے دوسروں پر ہمہ وقت اپنی جان نچھاور کر نا اپنی سعادت سمجھتے ہیں ،بس ایسے انسان دوست افراد کو ڈھو نڈنے کی ذرا سی زحمت کی ضرورت ہو تی ہے ، ہما را المیہ کیا ہے ، ہم دوسروں سے بے انتہا در جے کی محبت ، خلوص اور قر بانی کے آرزو مند ہیں ، خود مگر ہم مادیت کے خو گر واقع ہو ئے ہیں ، کہیں انسان دوستی میں ہماری انا آڑے آجا تی ہے ، کہیں دولت کے گھمنڈ میں ہم انسان کو انسان سمجھنے کے لیے تیار نہیں ، کہیں ہم اپنے ” عہدوں “ کے اسیر بن جا تے ہیں ، کہیں ہماری ” ناک “ پر خلو ص انسان پانے کی راہ میں رکا وٹ بن جا تی ہے ، کبھی ذات پات کے گھیرا اپنے ارد گرد ڈال دیتے ہیں ، کبھی پر خلوص دوست پا نے کی راہ میں ہمارا مر تبہ حائل ہو جا تا ہے ، کہیں ہم اپنے مزاج کے اسیر ی کی وجہ سے ایک اچھے انسان کی محبت سے محروم ہو جا تے ہیں ، دوست ، جناب اور بھا ئی یہ تینوں بظاہر عام سے لفظ ہیں ، حقیقتاً مگر یہ تینوں لفظ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتے ہیں ، دوستی کے باب میں ہم سے انفرادی اور اجتماعی طور پر بڑی سنگین غلطی سر زد ہوتی ہے جس کا بر وقت ہمیں احساس نہیں ہوتا ، جب مخلص دوست بنا نے کا وقت ہو تا ہے ، اس وقت ہم حرص ، دولت کے انبار جمع کر نے اور اپنی ” انا “کے زیر اثر ہو تے ہیں ، زندگی کے ” بہار “ کے دنوں میں جب کو ئی پر خلوص شخص ہمارے قریب ہو تا ہے اس وقت ہم اسے اپنے مر تبے سے تو لتے ہیں ، کمال کے دور میں ہمیں اپنے سواباقی انسان ” چیو نٹی “ نظر آتے ہیں ، دوستی کے باب میں ہمارے نظر یات کیا ہیں ، ہماری خواہش ہو تی ہے کہ ہمارے مزاج کے عین مطابق دوسرا شخص چلے ، ہمارے خود ساختہ اصولوں پر دوسرا انسان اپنی انا اور اپنا خلوص قر بان کر ے ، تلخ سچ کیا ہے ، اپنے گریباں میں جھا نکنے کے وصف سے ہم یکسر عاری ہیں ، دوسروں کے جذبات کیا ہیں ، ان کا مزاج کس طر ح ہے ، ہمیں دوسروں کے جذبات اور احساسات کا رتی بھر احساس نہیں ہو تا ، ، جو بات ہماری زباں سے نکلے دوسرا اس پر صدق دل سے آمین کہے ، ہم جو کہیں دوسرا من و عن ہمارے کہے پر لبیک کہے ، بھلا ہمارے ایسے آمرانہ رویے سے پر خلوص دوست کا ساتھ میسر ہو سکتا ہے ، دوسروں کے دل میں اپنے لیے خلوص کی آگ بھڑ کا نے کے لیے ضروری ہے کہ دوستی کے باب میں ہم خلوص کی چاشنی کو پہلے نمبر پر رکھیں ، بغیر کسی غرض کے اپنے دوست پراپنی محبت وارنے کی خو اپنا ئیں ، دوسروں کے جذبات اور احساسات کو بھی اتنا ہی مقدم جا نیں جتنا ہمیں اپنی احساسات اور جذبات کا احساس ہو تا ہے ، دوستی کا پہلا زینہ اور پہلا قرینہ راز داری ہے ، راز داری کے وصف کو اپنا خو بنا لیجئے ، کامل خلوص کو زد راہ بنا نے کے لیے اپنے دل کے دروازے پو رے کے پو رے کھو ل دیجئے ، عہدوں اور دولت کے انبار کو دوستی کے شرائط سے ” د ف ع“ کر نے کا صد ق دل سے تہیہ کیجئے ، دوسروں پر خلوص نچھاور کرنا اپنا خو بنا لیجئے ، یقین کیجئے آپ کے اس طر ز عمل سے آپ کو چند ایک ایسے پر خلوص دوستوں کا ساتھ نصیب ہو جا ئے گا ، جس سے آپ کی یا سیت ختم ہو جا ئے گی ، آپ کی زندگی میں ” خزاں “ کا نام تک نہیں رہے گا ، بات مگر یہاں پر اٹکتی ہے کہ ناک کٹنے کے ڈر سے ہم پر خلوص احباب سے ہا تھ ملا نے سے گریز پا رہتے ہیں ، ظاہری جا ہ و جلال کے ہم دلدادہ ہیں ، دوسروں پر محبت اور خلوص نچھاور کر نے کے لیے ہم تیار نہیں اور آرزومند ہیں کہ ” نگینے “ جیسے دوست ہماری زندگی سے جڑ جا ئیں ، ایسا ممکن نہیں ، دوستی کا معیار مال و دولت اور مر تبہ نہیں ، دوستی کا میعار خلوص اور محبت ہے سو آج سے تہیہ کر لیجئے کہ اپنے ارد گرد رہنے والوں پر ہم اپنا خلوص نچھاور کر یں گے ، ان کے دکھ سکھ میں دل وجاں سے شر یک ہو ں گے ، بس یہ خو اپنا لیجئے ، آپ کو دوست ڈھو نڈنے کی زحمت نہیں کر نی پڑ ے گی ، ہیرے جیسے دوست خود بخود آپ کے دامن کا حصہ بن جا ئیں گے ، آپ کی زند گی میں اچھے دوستوں کی آمد سے ” بہار “ کا سا ساماں پیدا ہو جا ئے گا ، آزمائش شرط ہے ، ذرا اس پر صدق دل سے عمل کر لیجئے ، دیکھیے آ پ کی زند گی کیسے پھر سے ” سانس “ لینے لگتی ہے ، سوال بس یہ ہے کہ آپ دوستی کے تقا ضوں پر پو را اتر نا تو پہلے سیکھ لیجئے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :