”باغی“

جمعہ 21 جنوری 2022

Ahmed Khan

احمد خان

نو ر عالم خان پشاور سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ہیں ان کا شمار ان حکومتی اراکین میں ہو تاہے جو بغیر کسی لگی لپٹی عوام کی زبان پر مچلتے سوالوں کو اپنی زباں دینے کی شہرت رکھتے ہیں اقتدار کے ابتدائی ایام میں جب شفافیت کے دعوے دار عوام کی امنگوں پر پورا اترنے سے ادھر ادھر ہو نے لگے اس وقت نور عالم نے کھلے بندوں اپنی حکومت کی پالیسیوں کو ہد ف تنقید بنا یا بعد میں بھی ہر موقع پر عوام کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ،کبھی اخباری بیانات کبھی کسے جرگے توکبھی ایوان زیریں میں اپنی حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کا تیا پانچہ کر تے رہے لگے دنوں مو صوف نے پھر حکم اذان کا حق ادا کیا ایک ٹی وی پروگرام میں اپنی حکمراں جماعت کے خلاف بولے اور اچھے بھلے بولے ، ایوان زیریں میں بھی حکومت کے دوستوں کو عوام کے بھلے کی واعظ کر تے رہے ، نو ر عالم کا سیاسی بانک پن جماعت کے بڑوں سے ہضم نہیں ہوا سو حکمراں جماعت نے اپنے رکن اسمبلی سے باز پرس شروع کر دی اسی صف میں اٹک سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی طاہر صادق کا شمار بھی ہوتا ہے اپنی حکومت کی غلط پالیسیوں مالی بد عنوانیوں گرانی اور بے روز گاری کے حوالے سے طاہر صادق بھی حق سچ کہنے سے نہیں چوکتے ، کئی حکومتی اراکین اور بھی ہیں جو اپنی حکومت کے عوام مخالف اقدامات پر دل ہی دل میں کڑ ھتے ہیں لیکن ان حکومتی اراکین میں اتنی جرات رندانہ نہیں کہ وہ نو ر عالم اور طاہر صادق کی طرح عوامی حقوق کے لیے صدا ئے احتجاج بلند کر سکیں ، نور عالم اور طاہر صاد ق نے جو راستہ چنا ہے اغلب امکان یہ ہے کہ تحریک انصاف شاید ہی انہیں پارٹی ٹکٹ دے ، دونوں ممبران قومی اسمبلی نے عوام میں لیکن اتنی سیاسی عزت بنا لی کہ آنے والے عام انتخابات میں انہیں پارٹی ٹکٹ سے سروکار نہیں ہوگا ، ہماری سیاسی جماعتوں میں سچ پو چھیے تو عملا ً جمہوری آمریت کے اصول لاگوہیں ، ہر سیاسی جماعت کی رہبران اپنے ” فرمان “ اور اقدامات کو حرف آخر گردانتے ہیں ، جمہور اور جمہوریت کے گن گانے والی سیاسی جماعتوں کی اعلی قیادت مگر چاہتی ہے کہ ان کی جماعت میں ” آمریت “ کا چلن سربازار ہو اگر کو ئی سیاسی کارکن یا دوسرے درجے کا پارٹی رہنما اپنی جماعت کی کسی پالیسی سے اختلاف کی جرات کر تا ہے ایسے سیاسی کارکن اور سیاسی رہنما کو کسی بھی سیاسی جماعت میں ” بے گانہ “ تصور کیاجاتا ہے ، جناب خان کل تک مسلم لیگ ن پی پی پی سمیت تمام چھو ٹی بڑی سیاسی جماعتوں میں رائج شخصی آمریت پر تاک تاک کر تیر آزمایا کر تے تھے ، طرفہ تما شا ملا حظہ کیجیے آج جناب خان کو اپنے اراکین کا بولا سچ ہضم نہیں ہو رہا ، دراصل پاکستانی سیاسی جماعتوں میں ” جی حضوری بہت ضروری “ باقاعدہ اعلی قیادت کی نظروں میں پسندیدہ بننے کی سند کا درجہ پاچکی ہے ، کل تک مسلم لیگ ن کے دوست شکوہ کر تے نظر آتے کہ میاں صاحبان ماسوائے اپنے چند خاص مصاحبین کے کسی سیاسی کارکن اور عام پارٹی رہنما کی سننے ماننے کو تیار تو دور کی بات انہیں دستیاب تک نہیں ہو تے ، آج جمہوریت کا درس دینے والے جناب خان کی جماعت میں اختلاف رائے کر نے والے پر زمین تنگ کر نے کی روش عروج پر ہے ، جان عزیز پاکستان میں جمہوریت صحیح معنوں میں آج تلک کیوں توانا نہ ہو سکی ، اس کی بڑی وجہ پاکستانی سیاست میں سر گرم عمل سیاسی جماعتوں کے اندر راسخ ہو نیوالے آمرانہ رویے ہیں ، جو سیاسی جماعت حزب اختلاف میں ہو تی ہے اس وقت اسے کارکن اچھے لگتے ہیں لیکن جب وہی سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے پھر اسے اپنے سیاسی کا رکنوں کی زبانیں ” گزبھر “ لگنی شروع ہوجاتی ہیں ، نو ر عالم خان اور طاہر صادق جیسے عوامی نما ئندوں نے حق کی صدا بلند کر کے اپنی مقبولیت کو سوا کیا ہے ، زیا ں اگر ہوا ہے تو حکمران جماعت تحریک انصاف کا ہوا ہے ، حق سچ کی صدا بلند کر نے والے در اصل یہی ” باغی “ کسی بھی سیاسی جماعت کا اصل اثاثہ ہوا کر تے ہیں انہی ” باغیوں “ کے طفیل سیاسی جماعتوں کو عوام میں پذیرائی ملا کرتی ہے انہی باغیوں کے صدقے عوام کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ” آوے بھئی آوے “کے نعرے لگا یا کر تی ہے ، سیاسی جماعتوں کو ایسے باغیوں سے جان چھڑا نے کے بجا ئے انہیں سر آنکھوں پر بٹھا نا چا ہیے کہ انہی باغیوں کی ” بغاوت “ کی وجہ سے تو جمہو ریت پاؤں پا ؤں چلا کر تی ہے ، میاں مٹھو قسم کی مخلوق تو صرف اپنے مفاد کی حد تک ساتھ ہو تی ہے اور بس ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :