”چائے کی پیالی میں طوفان “

ہفتہ 15 جنوری 2022

Ahmed Khan

احمد خان

ایک مرتبہ پھر کپتان اور کپتان حکومت افواہوں کی طوفان کی زد میں گھر چکی ہے ، کپتان کے یار غار اور کپتان کے اہم کھلا ڑی پر ویز خٹک کے درمیان بھری محفل میں سنجیدہ نوک جھونک نے پھر سے کپتان حکومت کی ” استقامت “ پر سوالات کھڑ ے کر دیے ہیں ، سیاسی حلقوں میں کپتان اب گیا کہ تب گیا کی چٹخارے دار بحث زوروں پر ہے ، خٹک نے کپتان سے جو کچھ کہا وہ زباں زباں پر ہے، سیاسی پنڈتوں کے اندیشہ ہا ئے دور دراز کے مطابق حکومتی اراکین پہلے ہی کپتان کی پالیسیوں سے بر ملا نا لا ں تھے اب ایک اہم ترین پارٹی رہنما اور وزیر کی جانب سے ” بغاوت “ کو حکومت کی رخصتی کا بگل جا ن لیجیے ، اس میں دو را ئے نہیں کہ کپتان حکومت کی پالیسیوں سے عام آدمی اچھا بھلا ناکوں ناک آچکا ، عوامی چوکوں اور چو باروں میں کپتان سے نالانی بھی زبان زد عام ہے ، سوال مگر اپنی جگہ برقرار ہے کیاکپتان حکومت آج کل کی مہماں ہے ، لا کھوں دلوں کی آرزو ایک طرف رکھیے ، زمینی حقائق شاید کپتان کی رخصتی کی چغلی ابھی نہیں کھا رہے ، حکومتی اراکین عوام میں ” اپنی اگلی ” باری “ پکی کر نے کے لیے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے نشتر بر ساتے رہتے ہیں لیکن حکومت کو جب کبھی ان کے کندھوں کی ضرورت پیش آتی ہے تو بغیر کسی خاص تکلف کے اپنے اپنے کندھے حکومت کو پیش کر دیتے ہیں ، جہاں تلک حزب اختلاف کا تعلق ہے ، چھو ٹے میاں صاحب اور بی بی صاحبہ حکومت کو گھر بھیجنے کے بیانات داغتے رہتے ہیں لیکن حزب اختلاف کی تگڑی جماعت مسلم لیگ ن اس موقع پر غیر فطری انداز میں مو جودہ حکومت کی رخصتی سے گریزاں ہے عین اسی پالیسی پر عوام کی راج دلا ری پی پی پی بھی عمل پیرا ہے ، سیاست کے رموز پر عبور رکھنے والے زرداری کم ا ز کم اس وقت کپتان حکومت کو گرانے کا گنا بے لذت اپنے نام نہیں کر نا چاہتے ، بہت سے قارئین سوچ رہے ہو ں گے کہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں عوام کے نباض بن کر موجودہ حالات سے کیو نکر فائدہ نہیں اٹھا رہی ہیں ، سیاست درا صل بے رحم کھیل ہے سیاست میں ہمیشہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہبر عوام کے مفاد کے بجا ئے اپنے مفاد کو عز یز تر رکھا کر تے ہیں ، عام انتخابات میں کتنا عرصہ رہ گیا ہے ، بس یو ں سمجھ لیجیے کہ دو چار ماہ کے بعد عام انتخابات کا موسم شروع ہو جا ئے گا، گو یا لے دے کر بس سال سے کچھ زائد کا وقت ہے ، اب ذرا اندازوں کے گھوڑے دوڑا لیجیے کیا محض چند ماہ کے لیے کو ئی سیاسی جماعت کپتان حکومت کے نقائص کو اپنے گلے کا ہار بنانا پسند کرے گی ، یاد رکھیے حالیہ اشاروں کے مطابق اگلے عام انتخابات میں پنجاب سے مسلم لیگ ن کی واضح جیت کی پیش گوئی سنجیدہ حلقے کر رہے ہیں ، اس صورت جب منزل چند گام کے فاصلے پر ہو تو بھلا کس طر ح چند ماہ کے اقتدار کی خاطر مسلم لیگ ن کے ” گرم سرد “ سے آگاہ رہبر اپنی منزل کھو ٹی کر یں گے ، کچھ ایسی ہی سوچ پی پی پی کے حلقوں میں بھی پائی جاتی ہے ، سیدھے سبھا ؤ یو ں کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت کو ئلوں کی دلالی میں دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے ہاتھ کا لے کر نے کے لیے تیار نہیں ، البتہ مکر ر عرض ہے کہ کپتان حکومت کو اپنے آپ سے خطرہ ہے ،جن پالیسیوں کو کپتان لے کر چل سوچل ہیں ، جس طرح کی کھیچڑی تحریک انصاف میں ہمہ وقت پک رہی ہے جس طر ح کے لب و لہجے میں کپتان کے دانا وزیر باتیں کر رہے ہیں اگر کپتان کے دائیں بائیں تشریف فر ما اسی طر ح ” مورچہ زن “ رہے اور بغیر تولے بولنے کی روش پر عمل پیرا رہے شاید کپتان کے اپنے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہی کپتان اور کپتان حکومت کی قبل از وقت رخصتی کا ساماں کر لیں ، یہاں اس نکتے کو عیاں کرنا بھی از حد ضروری ہے کہ کیا آنے والے دن کپتان کے لیے چین ہی چین لا رہے ہیں ایسا قطعاً نہیں ، کپتان اور کپتان کے اعلی دماغ جن راستوں پر رواں ہیں آنے والے دنوں میں کپتان حکومت کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا ، کپتان سے ” جا نے والے “ غیر محسوس انداز میں اپنے ہاتھ چھڑا نے کی راہ پر گامزن ہو چکے ، کپتان کے ساتھ بس ” چند کا ٹولہ “ ہی اقتدار کے آخری دن تک نظر آئے گا ، در اصل یہی وہ ” چند کا ٹولہ “ ہے جس پر اعتبار کر کے کپتان نے اپنی بائیس سالہ محنت کو دریا برد کر دیا ہے ، جن کے کہے کو مان کر کپتان کے ہاتھ سے مخلص دوست پھسل گئے ، خوش فہمی کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر ایک لحمہ کے لیے فر ض کر لیتے ہیں کہ کپتان پانچ سال ” لگانے “ میں کامران ہو جا ئیں گے لیکن اگلے عام انتخابات میں کپتان وہی جاکر کھڑے نظر آئیں گے جہاں سے بائیس سال قبل کپتان نے اپنی سیاسی سفر کی شروعات کی تھیں ، طویل عرصہ کے بعد دو سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری ختم دیکھ کر سیاسی پنڈتوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ چلیے قومی دھارے میں بصورت تحریک انصاف کی آمد سے دو سیاسی جماعتوں کی ” باریوں “ سے عوام کی جان چھو ٹ گئی لیکن کپتان اپنی پہلی باری کو سنبھالا دینے میں نامراد ٹھہرے ، فر ض کریں تحریک انصاف عوام کی نظروں سے گرتی ہے پھر سمجھ لیجیے کہ اگلے آنے والے ماہ و سال پھر سے جمہوری آمریت کے ہیں ، مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی گرماگرم سیاست ہو گی فلک شگاف نعرے اور دل ربا وعدے ہو ں گے اور بس ،بہر طور آنے والے دن ہنگامہ خیز ہیں ار ہنگامہ خیز ماہ وسال میں بہت سی نئی خبریںآ پ کی منتظر ہیں سو نئے سیاسی زلزلوں کے لیے ابھی سے خود کو تیار رکھیے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :