”آغاز تو اچھا ہے“

ہفتہ 29 جنوری 2022

Ahmed Khan

احمد خان

انصاف کی تیز تر فراہمی کو یقینی بنا نے کے لیے بالفاظ دیگر انصاف کو رواں اور ارزاں کر نے کے لیے حکومت وقت نے جنبش دکھائی ہے خبر گرم ہے کہ حکومت سر عت سے انصاف کے حصول کو یقینی بنا نے کے لیے قوانین میں ترامیم کی راہ پر ہے حکومتی حلقوں کے مطابق وزیر اعظم ایسے نئے قوانین کو سر راہ کر نے کے لیے بھی سرگرم ہیں جن کے رائج ہو نے سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا بلکہ بہت حد تک شک کی بنیادپر سزا سے بچ جا نے والوں کا رستہ بھی کھوٹاہو جائے گا، انصاف کے حصول میں پاکستانی قوم کو شد ید مشکلات کا سامنا ہے ، انصاف کے حصول میں عام شہری کو کن کن مصائب کا سامنا کر نا پڑ تا ہے اس سے قوم کا بچہ بچہ آگاہ ہے ، عدالتوں میں جس رفتار سے مقدمات انصاف کی منزل تک مسافت طے کر تے ہیں اسے ایک تکلیف دہ امر سے تعبیر دی جاسکتی ہے ، سوال یہ ہے کہ حکومت وقت کی جانب سے نئے قوانین کے ا طلاق کے بعد انصاف کا حصول کیا عام آدمی کے لیے سہل ہو جا ئے گا ، سن لیجیے وطن عزیز کا شما ر دنیا کے ان چند ممالک میں ہوا کرتا ہے جہاں سب سے زیادہ قوانین موجود ہیں گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک طر ح سے قوانین کی بھر مار ہے ، کو ئی ایسا قضیہ کو ئی ایسا سماجی پہلو نہیں جس کے بارے میں قوانین موجود نہ ہوں ، مسئلہ دراصل قوانین کے اطلاق اور قوانین پر اصل روح کے ساتھ عمل داری کا ہے ، انصاف کے باب میں پولیس کے کیافرائض ہیں پولیس کو مظلوم کے ساتھ کس طر ح کا ” حسن سلوک “ کر نا چاہیے ، باریکی سے قانون کی کتابوں میں ایک ایک نکتہ موجود ہے عملا ً مگر دیکھ لیجیے کہ وطن عزیز کی پولیس انصاف کی ہوا کو سوا کر نے میں کیا کردار ادا کر رہی ہے ، عمومی طور پر پولیس کا رویہ عام آدمی کے ساتھ کیسا ہوتا ہے ، مظلوم کی دادرسی میں پولیس کتنی معاونت کر تی ہے ، ظالم کے ہاتھ کاٹنے میں پولیس کا کردار بہ حیثیت مجموعی کیاہوا کرتا ہے ، تمام تر قوانین موجود ہو نے کے باوجود پولیس کا رویہ اور کردار پوری قوم کے سامنے عیاں ہے ، سفارش اور چمک انصاف کی راہ میں کس طر ح حائل ہوا کرتے ہیں یہ کو ئی پر دے کی بات نہیں رہی ،دیار غیر میں عدالتیں انصاف فراہمی کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں ، عام شہری اپنی حق تلفی کے لیے عدالتوں کے در پر اپنی آہ بلند کیا کر تے ہیں اور مختصر وقت میں انہیں انصاف مل جایا کر تا ہے ،ہماری عدالتوں میں بالخصوص ضلعی عدلیہ میں مقد مات لٹک جا یا کرتے ہیں عام شہری بر سوں ضلعی عدلیہ میں انصاف کے حصول کے لیے دھکے کھاتے ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا ، حکومتوں کی طرح عدلیہ میں بھی پالیسیوں میں استقامت کا فقداں پایا جاتا ہے ، عام طور پر عدالت عظمی کے عزت ما ب چیف جسٹس صاحبان کے تابع عدلیہ چلا کر تی ہے ، چند ایک چیف جسٹس صاحبان ایسے گزرے جو مقدمات کو تیزی سے نمٹا نے کی پالیسی کے خو گر رہے سو ان کے ادوار میں ضلعی عدلیہ اور عدالت عالیہ کی سطح پر مقد مات نمٹا نے کی رفتار حوصلہ افزاء رہی جیسے ہی وہ چیف جسٹس صاحبان رخصت ہو ئے عدلیہ میں پھر مقد مات کی رفتار ” سبک خرام “ نہیں رہی ، اصل مد عا کیا ہے ، حکومت وقت انصاف کی تیزفراہمی کے لیے محض قانون سازی تک نہ رہے بلکہ عدالتی شعبہ میں ایسے اصلاحات لا گو کر نے کی طرف بھی قدم بڑھا ئے تاکہ ایک پائیدار پالیسی کے طور پر سرعت سے انصاف کی فراہمی کا ڈنکا چہار سو صدا بجتا رہے ، حکومت وقت ضلعی عدلیہ سے عدالت عظمی تک نہ صرف انصاف کی سر عت سے فراہمی کو یقینی بنا نے کے لیے انقلاب آفریں اقدامات کرے بلکہ عدالتی فیصلوں پر عمل در آمد کر نے کی واضح پالیسی بھی حکومت وقت نافذ کر ے ، المیہ کیا ہے ، ہماری ہر دور کی حکومتیں اولاً خود عدالتوں کے فیصلے پر من و عن عمل در آمد سے سر تابی کر تی رہی ہیں ، کچھ ایسا ہی معاملہ طاقت ور طبقات کا بھی ہے ، جب تک معاشرے میں خود کو قانون سے بالا سمجھنے والے عنصر کی سرکوبی نہیں کی جاتی اس وقت تک وطن عزیز میں قانون کی عمل دراری کا خواب کامل طور پر شر مندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ،پہلے حکومت طاقت ور طبقات کو قانون اور انصاف کی بندوق کے سامنے کھڑا کر نے کی سعی کر ے اس کے بعد انصاف کی فراہمی کے معاملے میں بہتری آنے کی امید باندھی جاسکتی ہے ، جہاں تک زبا نی کلا می جمع تفریق کی بات ہے سابق حکمران بھی انصاف کے باب میں خوش نما نعرے لگا تے رہے لیکن عملاً آج تک عام شہری کی آسانی کا خواب محض خواب ہی رہا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :