”دھیرج ! کون کہتا ہے خزانہ خالی ہے“

ہفتہ 5 فروری 2022

Ahmed Khan

احمد خان

جناب خان اور ان کے ہم دم دیرینہ لگے ساڑھے تین سالوں میں تسلسل سے خزانہ خالی ہو نے کی نوید قوم کو اتنی بار سنا چکے گویا اب غریبوں کی غم خوار حکومت کی گردان سے قوم کے کان پک چکے ، بجلی پر قوم رعایت مانگے جواب ملتا ہے خزانہ خالی ہے بوجھ برداشت کیجیے ، گیس پر رعایت کا سوال کیا جائے جواب ملتا ہے سابق حکمران خزانے پر ہاتھ صاف کر چکے گیس کی نر خوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا ئیے ، تیل مصنوعات کی قیمتوں کو کچھ لگا م دینے کی فر یاد کی جا ئے حکومت کے بڑے توند ” چھٹی ناں “ عوام کے منہ پر مار دیتے ہیں ، اشیا ء ضرویہ کی قیمتوں میں بڑ ھوتری پر غرباء آہ وفغاں کر یں ، حکومتی ایوانوں سے دل گر دہ جلا دینے والے عجب سی منطق عنایت کر دی جاتی ہے ، تر قیاتی منصوبوں کے باب میں کچھ کر گزرنے کی عوامی درخواست ردی کی ٹو کری میں ڈال دی جاتی ہے ، کیا خزانہ واقعی خالی ہے ، کیا خزانے میں واقعی کھوٹا سکہ تک نہیں ، کیا ملک کے خزانے کی حالت اس قدر پتلی ہو چکی کہ صدر اور وزیر اعظم پانی میں باسی روٹی ڈبو کر پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں ، کیا وزیر مشیر اور حکومت کی ناک کے بال گردانے جانے والے ” کبیر “ ایک وقت کی روٹی کھا کر گزر اواقات کر تے ہیں ، سچ کیا ہے ، سابق اور موجودہ حکمران ا ور ان کے ” ارسطو“ عوام کو تواتر سے خزانہ خالی ہے کی خبر گوش گزار کر تے رہتے ہیں اگر خزانہ خالی ہے پھر صدر کے کروڑوں کے اخراجات کے لیے خزانے میں پیسے کہاں سے ہر ماہ آتے ہیں اگر خزانہ خالی ہے پھر وزیر اعظم کے ” جاہ و جلا ل “ پر روزانہ لا کھو ں خرچ ہو نے والی رقم کہاں سے آتی ہے ، کابینہ کی فوج ظفر موج کے اللو ں تللوں کے لیے اربوں کھر بوں کہاں سے آتے ہیں ، وزیر اعظم کے دوروں پر نمو د و نما ئش کی حد تک جو ” پھو ں پاں “ آئے روز دیکھنے کو ملتی ہے یہ پیسے کہاں سے آتے ہیں ، وزیر اعظم کے قافلے میں محض ” ہٹوبچو “ کے نام پر جو ” شان قلندری “ کا منظر آئے روز قوم دیکھتی ہے ، حفاظت کے نام پرخرچ ہو نے والی یہ رقم آخر کہاں سے آتی ہے ، کچھ ایسا ہی قصہ وزراء اور مشیروں کا ہے ، جہازی ساز کی کابینہ کے ایک ایک وزیر اور ایک ایک مشیر پر ماہا نہ لاکھو ں کا بار خزانے پر ہی پڑ تا ہے ، ایوان بالا ایوان زیریں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں تشریف فرما قوم کے ایک ایک پر دھان کی تنخواہ لاکھوں میں ہے قوم کی خاطر صبح شام اپنی توانیاں اور خون دل جلا نے والوں کے لیے خزانے میں کبھی ” کمی پیشی “ نہیں آئی ، لگے ساڑھے تین سالوں میں کو ئی ایک بار بتلا دیجیے کہ خزانہ خالی ہو نے کی عذر کی وجہ سے صدر وزیر اعظم اور وزراء کے واجبات معمولی سی تاخیر کا شکار ہوئے ہو ں ، لگے ماہ و سال میں کو ئی ایک نظیر پیش کر دیجیے کہ خزانے کی حالت ” پتلی “ ہو نے کی بنا پر عوامی نما ئندوں کی تنخواہ اور مراعات کی ادائیگی میں تاخیر ہو ئی ہو ، صدر سے شروع کیجیے اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران تک کی پرکھ کر لیجیے، ان قد ر دانوں کے لیے خزانہ لبالب بھرا ہے ، خزانہ خالی ہے صرف مزدور کے لیے ، خزانہ خالی ہے صرف بارہ ہزار بوڑھے بیمار پنشن لینے والے کے لیے ، خزانے کا دروازہ بند ہے تو صرف چھوٹے ملا زمین پر ، خزانے میں عام آدمی کی بہبود کے لیے کچھ نہیں ہے ، ریاست ماں جیسی ہوتی ہے شومئی قسمت کہ یہ دنیا کی واحد ماں ہے جس کی جیب میں امیر بچوں کی عیاشی کے لیے پیسہ ہر وقت موجود ہوتاہے لیکن جب کمزور بچوں کی باری آتی ہے تو ماں جیسی ریاست پر حالت نزاع طاری ہو جاتا ہے ، خدارا اب خزانہ خالی ہے کے بہلا وے سے خود کو آزاد کیجیے اور وقت کے سلطانوں سے اپنے حق کے حصول کے لیے سروں پر کفن باندھ لیجیے ، اریب قریب 72 سالوں میں دیکھ لیں ،ان 72 سالوں میں حاکم طبقے کی توندیں نو ٹوں سے بھرتی رہیں اور عام آدمی کی حالت فقیروں سے بھی ابتر ہو تی چلی گئی ، خانوں میں بٹے رہنے کا زیاں بہت کر چکے اب اپنے حق کے لیے نہ صرف صدا ئے حق بلند کر نے کی خواپنا نے کی سبیل کیجیے بلکہ حاکم طبقے سے اپنا حق چھیننے کے لیے عملاً ان کے گربیانوں کی طرف ہاتھ بڑھا ئیے ورنہ غربت آج بھی آپ کا مقدر ہے کل بھی غربت آپ کے کاندھوں کی شال رہے گی ، پہلے ہی غفلت میں آپ بہت کچھ کھو چکے اب غفلت کی چادر اتار کر خزانہ خالی ہے کی صدا بلند کر نے والوں سے دو دو ہاتھ کیجیے ، زند ہ قوم ہو نے کا ثبوت دیجیے اس صورت ہی آپ کے مقدر میں ہیر پھیر کی امید رکھیے بصورت دیگر وزیروں کے دن پھر تے رہیں گے اور غریبوں کے دن اسی طر ح رہیں گے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :